Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور انہوں نے اس چیز کا اتباع کیا جسے سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین پڑھتے تھے۔ اور نہیں کفر کیا سلیمان نے لیکن شیاطین نے کفر اختیار کیا۔ وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اور انہوں نے اس کا بھی اتباع کیا جو نازل ہوا دو فرشتوں پر بابل میں۔ یہ دو فرشتے ہاروت اور ماروت تھے اور یہ دونوں نہیں سکھاتے تھے کسی کو جب تک یوں نہ کہہ دیتے کہ ہمارا وجود ایک فتنہ ہے لہٰذا تو کفر اختیار نہ کر، پس یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھ لیتے تھے جس کے ذریعہ مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کردیتے تھے۔ اور وہ لوگ اس کے ذریعہ کسی کو کچھ بھی کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ کے حکم سے، اور وہ لوگ وہ چیز سیکھتے ہیں جو ان کو ضرر دینے والی ہے اور نفع دینے والی نہیں۔ اور البتہ تحقیق انہوں نے یہ بات جان لی کہ جس نے اس کو خریدا ہے اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور بیشک وہ بری چیز ہے جس کے ذریعہ انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ دیا اگر وہ جانتے ہوتے
بابل میں جادوگروں کا زور اور یہود کا جادو کے پیچھے لگنا جادو گری کا سلسلہ پرانا ہے۔ ہوتا تو سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور ارادہ ہی سے ہے۔ اسباب جو بھی ہوں، جادو بھی ایک سبب ہے جس سے احوال میں کچھ تغیر ہوجاتا ہے اور جس پر جادو کیا جائے اس کو تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کو ان کی امت کے لوگوں نے کہا (اِنَّمَا اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ ) (کہ تم تو انہیں لوگوں میں سے ہو جن پر جادو کردیا گیا ہو) اور یہی بات حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی امت کے افراد نے کہی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جادو گروں سے مقابلہ سو مشہور ہی ہے اور یہ جادوگری کا سلسلہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ تک تھا اور اس کے بعد بھی رہا ایک یہودی نے حضرت سرور عالم ﷺ پر جادو کردیا تھا جس کا ذکر بخاری شریف میں موجود ہے (ص 858 ج 2) اور اب بھی جادوگر دنیا میں موجود ہیں اور جادوگری دنیا میں رواج پائے ہوئے ہے۔ اول تو یہود کی شکایت فرمائی کہ اللہ کی کتاب انہوں نے پس پشت ڈال دی پھر فرمایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد حکومت میں جو شیاطین پڑھتے تھے یعنی جادو کرتے تھے اور اس میں مشغول رہتے تھے انہوں نے اس کا اتباع کیا۔ مفسرین نے اس طرح کے واقعات لکھے ہیں کہ عارضی طور پر چند دن کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت جاتی رہی تھی اس زمانے میں شیاطین نے ان کی کرسی کے نیچے جادو کی چیزیں دفن کردی تھیں اور جب ان کی وفات ہوگئی تو ان کو کھود کر نکالا اور لوگوں میں مشہور کردیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نبی نہیں تھے بلکہ جادو کے زور پر حکومت چلاتے تھے علماء بنی اسرائیل نے تو اس بات کو نہیں مانا لیکن ان کے عوام نے اس بات کو مان لیا اور کہنے لگے کہ یہ جادو ہی سلیمان (علیہ السلام) کا علم ہے اور اس کے سیکھنے سکھانے میں لگ گئے اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کی کتابوں کو چھوڑ بیٹھے، جب حضور سرور عالم ﷺ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ اللہ کے پیغمبروں میں سے تھے تو یہودیوں نے کہا کہ محمد (e) یہ کہتے ہیں کہ سلیمان بن داؤد ( علیہ السلام) نبی تھے حالانکہ وہ صرف ایک جادوگر تھے۔ اللہ جل شانہ نے یہ آیت نازل کی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سحر سے برأت نازل فرمائی اور صاف فرمایا : (وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا) (یعنی سلیمان نے کفر نہیں کیا لیکن شیاطین نے کفر اختیار کیا) ۔ شیاطین کا یہ مشغلہ تھا کہ لوگوں کو جادوسکھاتے تھے۔ (من القرطبی وابن کثیر) ہاروت ماروت کے ذریعہ امتحان : ارشاد ربانی ہے : (وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ ) ” یہود نے اس کا بھی اتباع کیا جو دونوں فرشتوں ہاروت و ماروت پر بابل شہر میں اتارا گیا۔ “ کسی زمانہ میں جادو کا بہت چرچا تھا خاص کر شہر بابل میں جو عراق میں واقع ہے، جادو کے اثرات کو دیکھ کر لوگ اس سے بہت متاثر ہوئے اور جادو گروں کو مقدس سمجھنے لگے۔ اللہ جل شانہ نے جادو کا ضرر اور اس کی مذمت ظاہر فرمانے کے لیے دو فرشتوں کو بھیجا جن کا نام ہاروت اور ماروت 1 ؂ تھا تاکہ وہ سحر کی حقیقت واضح کریں اور معجزہ اور سحر میں فرق ظاہر ہوجائے۔ اس میں لوگوں کا امتحان بھی مقصود تھا کہ دیکھا جائے کہ کون ایمان اور خیر کو اور کون کفر اور شر کو اختیار کرتا ہے۔ جب ان فرشتوں نے اپنا کام شروع کیا تو لوگ ان کے پاس آنے جانے لگے اور کہنے لگے کہ ہم کو بھی جادو کے اصول و فروع بتادیں۔ وہ دونوں فرشتے جب ان کو جادو کی کوئی چیز بتاتے تو پہلے یہ ظاہر کردیتے تھے کہ دیکھواللہ تعالیٰ نے ہم کو اپنے بندوں کی آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے کہ ان چیزوں کو جان کر کون شخص اپنے دین کی حفاظت کرتا ہے اور شر سے بچتا ہے اور کون شخص اپنے دین کو برباد کرتا ہے اور اپنے لیے شر کو اختیار کرتا ہے۔ وہ فرشتے کہتے تھے کہ ہم تم کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تم حاصل کرنا چاہتے ہو تو اچھی نیت سے حاصل کرو کہ شر سے محفوظ رہو گے، پھر اسی نیت پر قائم رہنا، شر کے لیے معلوم نہ کرو اور اس کو شر میں استعمال نہ کرنا ورنہ اس میں لگ کر ایمان برباد کرلو گے جو شخص ان سے اس طرح کا عہد و پیمان کرلیتا تھا وہ اسے جادو کے اصول و فروع بتا دیتے تھے اس کے بعد جو کوئی اپنے عہد پر قائم نہ رہتا اور اس جادو کو مخلوق کی ایذا رسانی کا ذریعہ بنا لیتا تو وہ اس کا اپنا عمل تھا۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں : و ھذان الملکان أنزلا لتعلیم السحر ابتلاء من اللّٰہ تعالیٰ للناس، فمن تعلم و عمل بہ کفر۔ و 1 ؂ ومما یقضی منہ العجب ماقالہ الامام القرطبی ان ھاروت و ماروت بدل من الشیاطین علی قراء ۃ التشدید و ما فی (وما أنزل) نافیۃ والمراد من الملکین جبرائیل و میکائیل لأن الیھود زعموا أن اللّٰہ تعالیٰ أنزلھما و فی الکلام تقدیم و تاخیر، والتقدیر (و ما کفر سلیمان) (و ما أنزل علی الملکین) (ولکن الشیاطین) (ھاروت و ماروت) (کفروا یعلمون الناس السحر) (بابل) وعلیہ فالبدل اما بدل بعض من کل و نص علیھما بالذکر لتمردھما، ولکونھما رأسأ فی التعلیم، أوبدل کل من کل اما بناءً علی أن الجمع یطلق علی الاثنین او علی أنھما عبارتان عن قبیلتین من الشیاطین لم یکن غیر ھما بھذہ الصفۃ، واعجب من قولہ ھذا قولہ : وھذا أولی ماحملت علیہ الاٰیۃ من التاویل وأصح ما قیل فیھا۔ ولا یلتفت الی ما سواہ، ولا یخفی لدی کل منصف أنہ لاینبغی لمؤمن حمل کلام اللّٰہ تعالیٰ ، وھو فی اعلی مراتب البلاغۃ والفصاحۃ علی ماھو ادنی من ذلک، و ما ھو الامسخ للکتاب اللّٰہ تعالیٰ عزشانہٗ واھباط لہ عن شاواہ۔ (روح المعانی ص 343 ج 1) من تعلم و توقی عملہ ثبت علی الایمان، وللّٰہ تعالیٰ أن یمتحن عبادہ بما شاء کما امتحن قوم طالوت بالنھر و تمییزا بینہ و بین المعجزۃ حیث أنہ کثر فی ذلک الزمان، و اظھر السحرۃ اموراً غریبۃً وقع الشک بھا فی النبوۃ فبعث اللّٰہ تعالیٰ الملکین لتعلیم أبواب السحر حتی یزیلا الشبہ و یمیطا الأذی عن الطریق قیل کان ذلک فی زمن ادریس (علیہ السلام) (ص 340 ج 1 و مثلہ فی تفسیر ابن کثیر ص 137 ج 1) حضرت حکیم الامت تھا نوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی عالم باعمل کے پاس جائے کہ مجھ کو فلسفہ قدیمہ یا جدیدہ پڑھا دیجئے تاکہ خود بھی شبہات سے محفوظ رہوں اور مخالفین کو جواب دے سکوں اور اس عالم کو یہ احتمال ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ کو مثلاً دھوکہ دے کر پڑھ لے پھر خود بھی تقویت باطل میں اس کا استعمال کرنے لگے اور اس احتمال کی وجہ سے اس کو نصیحت کرے کہ ایسا مت کرنا اور وہ وعدہ کرے اور اس لیے اس کو پڑھا دیا جائے۔ لیکن پھر وہ شخص درحقیقت قصداً اسی سوء استعمال محتمل میں مبتلا ہوجائے، سو ظاہر ہے کہ اس کے سوء استعمال سے اس معلم پر کوئی ملامت یا قبح عائد نہیں ہوسکتا اسی طرح اس اطلاع سحر سے ان فرشتوں پر کسی شبہہ و وسوسہ کی گنجائش نہیں۔ (بیان القرآن) جادو کے بعض اثرات : پھر فرمایا : (فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِہٖ ) (یعنی وہ لوگ ان دونوں فرشتوں سے وہ چیز سیکھ لیتے تھے جس کے ذریعہ میاں بیوی میں جدائی کردیتے تھے) اس سے معلوم ہوا کہ جادو کے اثر سے دو محبت والوں میں بغض پیدا ہوسکتا ہے اور میل محبت والوں میں جدائی ہوسکتی ہے جادو کے ذریعہ اس زمانہ کے لوگ کیا کیا حرکتیں کرتے ہوں گے کیا کیا ایذائیں دیتے ہوں گے ان میں سے صرف ایک ایسی چیز کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت ہی مبغوض اور شیطان کو بہت محبوب ہے اور وہ ہے میاں بیوی کے درمیان جدائی کردینا۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے پھر اپنی جماعتوں کو بھیجتا ہے اس کی جماعتوں کے افراد لوگوں کو فتنہ میں دالتے ہیں ابلیس کا سب سے بڑا مقرب ان میں سے وہ ہوتا ہے جو فتنہ ڈالنے میں سب سے بڑا ہو (فتنوں میں مبتلا کرکے اس کے نمائندے اس کے پاس آتے رہتے ہیں اور اپنا اپنا کمال ظاہر کرتے ہیں) ان میں سے ایک آکر کہتا ہے کہ میں نے ایسا ایسا کیا تو ابلیس کہتا ہے کہ تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک آتا ہے وہ کہتا ہے کہ فلاں شخص کے پیچھے اتنا لگا کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان میں نے جدائی کردی اس کی یہ بات سن کر ابلیس اسے قریب کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے کام کیا ہے۔ حضرت اعمش (راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ مجھے جہاں تک یاد ہے اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ابلیس اس کو چمٹا لیتا ہے، جس نے میاں بیوی میں جدائی کرا دی۔ (صحیح مسلم ص 376 ج 2) جادو کا اثر باذن اللہ ہوتا ہے : پھر فرمایا (وَ مَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ ) (یہ لوگ جادو کے ذریعہ کسی کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ کے حکم سے) اس میں یہ بات واضح طور پر بتادی کہ جادو کے زور سے جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی اللہ کی مشیت اور ارادہ سے ہی ہوتا ہے جو ظاہری اسباب لوگوں کے سامنے ہیں مثلاً آگ سے جل جانا اور چاقو چھری سے زخمی ہوجانا اور بعض مشہور دواؤں کے کھانے سے اسہال ہوجانا اور روٹی سے پیٹ بھر جانا اور پانی سے سیراب ہوجانا اس طرح کی چیزیں چونکہ روزانہ مشاہدہ میں آتی ہیں اس لیے ان کو کچھ عجیب نہیں سمجھا جاتا اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو آگ نہ جلائے (جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ نے کچھ اثر نہیں کیا) اور اللہ تعالیٰ چاہے تو خوب زیادہ کھانے سے بھی پیٹ نہ بھرے (جیسا کہ جوع البقر کا مریض کھاتا ہی رہتا ہے اور اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اور جیسا کہ استسقاء کا مریض پیتا ہی رہتا ہے مگر پیاس نہیں بجھتی) جادو کے ذریعہ جو کچھ ہوتا ہے اس کے اسباب ہوتے ہیں لیکن وہ اسباب پوشیدہ ہوتے ہیں، نظروں کے سامنے نہیں ہوتے اس لیے جادو کے اثر سے ظاہر ہونے والی چیزوں کو لوگ تعجب سے دیکھتے ہیں اور کم علم اور کم فہم جادو گروں کے بہت زیادہ معتقد ہوجاتے ہیں اور بہت سے جاہل پیر تھوڑا بہت جادو یا مسمریزم کا کام سیکھ کر جاہلوں کو معتقد بنانے کا کاروبار بھی کرلیتے ہیں جادو کا اثر بھی جبھی ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو پھر جب اللہ چاہتا ہے تو جادو کٹ بھی جاتا ہے۔ جب جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں آئے تو انہوں نے فرمایا : (مَا جِءْتُمْ بِہِ السِّحْرُ اِنَّ اللّٰہَ سَیُبْطِلُہٗ ) (تم کچھ لائے ہو وہ جادو ہے بیشک اللہ تعالیٰ عنقریب اس کو نیست و نابود کر دے گا) بڑے بڑے جادو گروں کا عمل (سورۃ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ) اور (سورۃ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) کے ذریعہ ختم ہوجاتا ہے۔ جادو کے اسباب خفیہ : جادو کے پوشیدہ اسباب کئی طرح کے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ شیاطین سے مدد حاصل کرنے کے لیے ان کو خوش کیا جاتا ہے اور اس کے لیے کبھی ایسے الفاظ اور کلمات پڑھے جاتے ہیں جو کفر و شرک کے کلمات ہوں اور جن میں شیاطین کی تعریف کی گئی ہو اور کبھی ستاروں کی عبادت کی جاتی ہے کبھی ایسے اعمال اختیار کئے جاتے ہیں جو شیطان کو پسند ہیں مثلاً کسی کو ناحق قتل کرکے اس کا خون استعمال کرنا یا جنابت کی حالت میں رہنا اور نجاست میں ملوث رہنا اسی لیے زیادہ کامیاب جادو ان لوگوں کا ہوتا ہے جو گندے اور نجس رہتے ہیں اور جو طہارت سے اور اللہ تعالیٰ کے نام سے دور بھاگتے ہیں اور ان کی خبیث کاموں کی عادت ہوتی ہے، جادوگر عورتیں حیض کے زمانہ میں جادو کرتی ہیں جو زیادہ موثر ہوتا ہے عموماً خبیث شیاطین جادو گروں کے مددطلب کرنے سے کام کردیتے ہیں دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ یہ جادوگر کے کسی کرتب سے ایسا ہوگیا۔ جس طرح فرشتے ان حضرات کی مدد کرتے ہیں جو متقی ہوں اور طہارت اور پاکیزگی کو اختیار کرتے ہوں اور بدبو اور نجاست سے دور رہتے ہوں اللہ کے ذکر اور اعمال خیر میں لگے رہتے ہوں اسی طرح شیاطین ان لوگوں کے مددگار ہوتے ہیں جو قول اور فعل اور اعتقاد کے اعتبار سے خباثت اور نجاست میں شیاطین کی طرح ہوتے ہوں۔ کیونکہ تعاون کے لیے تناسب ضروری ہے۔ (من روح المعانی ص 338 ج 1) سحرۂ فرعون کا عمل : مفسر ابن کثیر نے ابو عبداللہ رازی سے سحر کی آٹھ قسمیں نقل کی ہیں۔ ان میں سے قوت خیالیہ کا اثر اور نظر بندی اور شعبدہ اور دواؤں کا استعمال کرنا بھی ذکر کیا ہے ان میں جو شعبدہ اور ہاتھ کی صفائی یا قوت خیالیہ یا دواؤں کا استعمال ہے اس کو مجازاً جادو کہہ دیا گیا ہے نظر بندی کو بطور مثال ایسا سمجھ لیا جائے جیسے ریل میں بیٹھے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ زمین بھی ساتھ ساتھ جا رہی ہے جیسے پلیٹ فارم پر وہ گاڑی چل رہی ہو جس میں ہم بیٹھے ہیں تو نظر کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ برابر کی گاڑی چل رہی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں جو جادوگر آئے تھے ان کے بارے میں ارشاد ہے۔ (یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی) (کہ ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں یوں معلوم ہو رہا تھا کہ یہ رسیاں اور لاٹھیاں دوڑ رہی ہیں) یہ سورة طہ میں ہے۔ اور سورة اعراف میں ارشاد ہے (فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْھَبُوْ ھُمْ وَ جَآءُ وْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ ) (کہ جب انہوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور ان پر ہیبت غالب کردی اور بڑا جادو لے کر آئے) اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ جادو گروں نے اپنے جادو سے لوگوں کی نظر بندی کردی تھی جس کے اثر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ان لاٹھیوں اور رسیوں کو سانپ سمجھنے گے۔ اور ان کے دل میں تھوڑا سا خوف بھی آگیا۔ سورة طہ میں ہے کہ (فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی) (موسیٰ نے اپنے جی میں خوف محسوس کیا) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ : (لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی وَاَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا اِنَّمَا صَنَعُوْا کَیْدُ سٰحِرٍ وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی) کیا ہے اس کو تمہاری لاٹھی نگل جائے گی۔ انہوں نے جو کچھ بنایا ہے یہ صرف جادو کا مکر ہے۔ اور جادوگر جہاں بھی ہو کامیاب نہیں ہوتا) ۔ معجزہ اور سحر میں فرق : جیسا کہ پہلے ہم نے عرض کیا کہ سحر کا اثر بھی اسباب کے تحت ہوتا ہے وہ اسباب عام لوگوں کے سامنے نہیں ہوتے اور جادو گروں کو ان پوشیدہ اسباب کا پتہ ہوتا ہے۔ اب رہا حضرات انبیاء کرام کا معجزہ تو اس میں کوئی سبب ظاہر یا پوشیدہ نہیں ہوتا اس میں بلا واسطہ اللہ تعالیٰ شانہ کا فعل حقیقۃً موثر ہوتا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ کا ٹھنڈا ہوجانا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے لاٹھی مارنے سے سمندر کا پھٹ جانا اور پتھر سے چشموں کا بہہ جانا۔ حضور اقدس ﷺ کے ایک مٹھی خاک پھینک دینے سے کافروں کی آنکھوں میں پہنچ جانا، مبارک انگلیوں سے پانی کا جاری ہوجانا اور تھوڑی چیز کا زیادہ ہوجانا، تھوڑے سے آٹے کی روٹیاں کئی سو آدمیوں کے لیے کافی ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کسی سبب کے تحت نہیں تھا ختم نبوت کے بعد ایک مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنا کہ اب کوئی نبی نہیں آسکتا ہر مدعی نبوت ساحر کے کرتبوں کی عقیدت سے اسے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اور اوپر جو معجزہ اور سحر کا فرق ظاہر ہوگیا اس کے علاوہ دونوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سحر گندے اور ناپاک لوگوں سے ظاہر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے نبی طاہرین اور صالحین بندے تھے۔ اس لیے بھی دونوں میں اشتباہ نہیں ہوسکتا۔ اور صاحب المعانی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی جادوگر کو یہ طاقت نہیں دی کہ دریا کو پھاڑ دے، یا مردوں کو زندہ کر دے یا جمادات سے بات کرا دے۔ اور ان کے علاوہ بھی ان میں سے کسی کو ایسی چیز پر قدرت نہیں دی جو حضرات انبیا کرام (علیہ السلام) کے معجزات تھے۔ (ص 239 ج 1) نیز صاحب روح المعانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض محققین نے سحر اور معجزہ کے درمیان یوں فرق بتایا ہے کہ معجزہ تحدی کے ساتھ ہوتا تھا یعنی صاحب نبوت کے ہاتھ پر جو کوئی معجزہ ظاہر ہوتا اس کی طرف سے نبوت کا دعویٰ ہوتا تھا اور جو معجزہ اس سے ظاہر ہوتا تھا، وہ اس کے مقابلہ میں اس طرح کی چیز پیش کرنے کا چیلنج بھی کرتا تھا اور یہ صورت کسی جادوگر اور جھوٹے مدعی نبوت کے ہاتھ پر ظاہر نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ کی عادت مستمرہ یوں ہی رہی ہے۔ (ص 339 ج 1) اور اب تو محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت ہی ختم ہے۔ بہتیرے جھوٹے مدعی نبوت پیدا ہوئے اگر کسی نے کوئی کرتب دکھایا بھی تو شعبدہ تھا اور سب جھوٹے اپنے کیفر کردار کو پہنچے۔ جادوگر تحدی یعنی چیلنج نہیں کرسکتے وہ تو مقابلہ سے ڈرتے رہتے ہیں اور ایک جادوگر دوسرے جادوگر کا کاٹ کردیتا ہے اور تماشا دکھانے والے جادو گروں کو دیکھا کہ بانسری بجتے بجتے اس کی آواز ختم ہوجاتی ہے اور مجمع میں کھڑا ہوا دوسرا جادوگر اس کی آواز بند کردیتا ہے۔ کسی نبی کے کسی معجزہ کے موافق کوئی کرکے نہیں دکھا سکا اور نہ اس کی کاٹ کرسکا۔ تاریخ اس کی شاہد ہے۔ کرامت اور سحر میں فرق : بہت سے اولیاء اللہ سے کرامت بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ حسب تحقیق صوفیاء کرام اس کرامت سے تقرب الی اللہ میں اور رفع درجات کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اور بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ صاحب کرامت کو اپنی کرامت کا پتہ بھی نہیں چلتا اس لیے محقق صوفیہ کے نزدیک کرامت کی کوئی اہمیت نہیں۔ شاید کسی کو یہ اشکال ہو کہ معجزہ اور سحر میں فرق ظاہر ہوگیا اب نبوت باقی بھی نہیں رہی تاکہ کسی کو دھوکہ ہو سکے لیکن اولیاء اللہ تو ہوتے ہیں اور ان سے کرامت کا صدور ہونا ممکن ہے۔ پھر کرامت اور جادو میں فرق ظاہر کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ سمجھ لینا چاہئے کہ کرامت اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں سے ظاہر ہوتی ہے جو عبادت میں اور ذکر اللہ میں اور اطاعت اور فرمانبرداری میں مشغول رہتے ہیں۔ پاک صاف ہوتے ہیں نجاست سے بچتے ہیں۔ جنابت ہوجانے پر جلدی غسل کرلیتے ہیں اور جادو ان لوگوں کا کام ہے جو گندے اور ناپاک ہوتے ہیں جنہیں اللہ کے نام سے بیر ہوتا ہے اور جو اللہ کی عبادت سے دور بھاگتے ہیں۔ نجاست اور خباثت اور جنابت میں متلوث اور متلبس رہنا ان کا مزاج بن چکا ہوتا ہے جو شخص یہ کہے کہ میں ولی صاحب کرامت ہوں اور اس کا حال وہ ہو جو شیاطین اور اس کے دوستوں کا ہوتا ہے یعنی طاعت و عبادت اور ذکر اللہ سے دور اور نجاست و جنابت اور خباثت سے بھر پور ہو اس کے ولی ہونے کا خیال کسی مسلمان کو نہیں ہوسکتا اور نہ اس کے کرتب کو کرامت کہا جاسکتا ہے۔ سحر فسق بھی ہے اور کفر بھی : صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں کہ سحر کے فسق یا کفر وغیرہ ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس کے کلمات کفریہ ہوں مثل استعانت بہ شاطین یا کو اکب وغیرہ، تب تو کفر ہے۔ خواہ اس سے کسی کو ضرور پہنچایا جائے۔ یا نفع پہنچایا جائے۔ اور اگر کلمات مباح ہوں تو اگر کسی کو خلاف اذن شرعی کسی قسم کا ضرر پہنچایا جائے یا اور کسی غرض ناجائز میں استعمال کیا جائے تو اس کو عرف میں سحر نہیں کہتے بلکہ عمل یا عزیمت یا تعویذ گنڈہ کہتے ہیں اور وہ مباح ہے۔ البتہ لغت میں لفظ سحر اس کو بھی شامل ہے کہ ہر تصرف عجیب کو کہا جاتا ہے اور اگر کلمات مفہوم نہ ہوں تو وہ بوجہ احتمال کفر ہونے کے واجب الاحتراز ہے۔ اور یہی تفصیل ہے تمام تعویذ گنڈوں اور نقش وغیرہ میں کہ غیر مفہوم نہ ہوں اور غیر مشروع نہ ہوں اور غرض ناجائز میں استعمال نہ ہوں، اتنی شرطوں سے جائز ہیں۔ ورنہ ناجائز، اور کفر عملی کا اطلاق ہر ناجائز پر صحیح ہے۔ پھر فرمایا (وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّ ھُمْ وَلاَ یَنْفَعُھُمْ ) (کہ وہ لوگ ایسی چیز سیکھتے تھے جو ان کو ضرر دینے والی تھی نفع دینے والی نہ تھی) علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں جادو کی وجہ سے نقصان پہنچے گا۔ اگرچہ دنیا میں ذرا بہت نفع کما لیں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ دنیا میں بھی ان کے لیے ضرر ہے کیونکہ جادو کا ضررجادوگر کو پہنچ جاتا ہے۔ حکومت اسلام اس کو سزا دے گی اور جادو گری کی بدبختی اس کو لاحق ہوگی۔ 1 ھ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ (وَلاَ یَنْفَعُھُمْ ) ماقبل پر معطوف ہے۔ اور اس میں یہ بتایا ہے کہ جادوخالص شر ہے اور ضررمحض ہے ایسا نہیں کہ جیسی بعض ضرر والی چیزیں نفع بھی دے جاتی ہیں۔ (جیسے زہرکا کشتہ اور وہ دوا میں مفید ہوجاتا ہے) اس لیے کہ جادوگر جادو سیکھ کر جادو گری کی باتوں سے محفوظ رہنے کا ارادہ نہیں کرتا تاکہ فی الجملہ کوئی نفع متصورہو سکے۔ اور یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ سیاق آیت سے یہ ظاہر ہے کہ وہ دونوں جہان میں غیر نافع ہے کیونکہ اس کا تعلق نہ امورمعاش سے ہے اور نہ معاد سے اور آیت میں جادو سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 1 ھ اگر کوئی شخص کبھی کوئی نفع جادو کے ذریعہ کسی مسلمان کو اس طرح کا پہنچا دے کہ مسلمانوں سے دفع ضرر کردے تو گویا ایک نفع ہے لیکن چونکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے اور عام طور پر جادوگر بےدین ہی ہوتے ہیں اس لیے عمومی طور پر جادو مطلقاً ضرر دینے والی چیز ہوئی۔ کوئی بھی جادوگر ایسا نہیں دیکھا گیا جس نے جادو کے زور پر دنیا جمع کرلی ہو، جائیداد حاصل کرلی ہو یا حکومت پر قابض ہوگیا ہو۔ ان لوگوں کو ہمیشہ بد حالی میں دیکھا جاتا ہے دین اور اعمال دین سے اور طہارت اور ذکر و عبادت سے تو دور ہوتے ہی ہیں دنیاوی اعتبار سے بھی میلے کچیلے اور پھٹے پرانے کپڑوں میں رہتے ہیں۔ تماشے دکھا کر یا لوگوں کے کہنے سے دوسروں پر جادو کر کے تھوڑے بہت پیسے وصول کرنے سے زندگی گزارتے ہیں اور چند پیسوں کے لیے دوسروں پر جادو کردیتے ہیں ان کی دنیا و آخرت کی تباہی نظروں کے سامنے ہے۔ اس کے بعد فرمایا : (وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَالَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ ) ” یعنی کتاب اللہ کو چھوڑ کر جو یہودی جادو کے کے پیچھے لگے انہیں معلوم ہے کہ جس نے جادو حاصل کیا اور کتاب اللہ کو چھوڑا اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ یہ سب جاننے کے باو جود انہوں نے جادو اختیار کرکے کفر مول لیا۔ “ پھر فرمایا (وَ لَبِءْسَ مَا شَرَوْابِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) کہ انہوں نے اپنی جانوں کو جو بیچ دیا یعنی جانوں کے بدلے جادو اور کفر خرید لیا اور اپنی جانوں کو دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے محروم کر کے مبتلائے عذاب کردیا۔ یہ بہت برا سودا کیا۔ اگر وہ اس کو جانتے تو ایسا نہ کرتے۔ فی روح المعانی لو کانو یعلمون ای مذمومیۃ الشراء المذکور لامتنعوا عنہ (ص 346 ج 1) و فی معالم التنزیل باعوا بہ أنفسھم (ای) حظ انفسھم حیث اختاروا السحر والکفر علی الدین والحق (ص 102 ج 1) ۔ مفسرین نے اشکال کیا ہے کہ پہلے تو (وَلَقَدْ عَلِمُوْا) فرمایا پھر (لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) فرمایا اس میں بظاہر تعارض ہے۔ پھر اس کے دو تین جواب دئیے جن میں سے ایک جواب یہ ہے کہ ان کا جاننا نہ جاننے کے درجہ میں ہے۔ جب ضرر جانتے ہوئے کسی چیز کو اختیار کیا اور ایمان سے منہ موڑا گویا کہ وہ جاننے کے باوجود نہیں جانتے۔ روح المعانی میں یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے عتاب اور عذاب کو تو جانا لیکن اس کی حقیقت اور شدت کو نہیں جانا گویا لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَکا مفعول محذوف ہے۔ پھر فرمایا (وَلَوْ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقُوْا) (الایۃ) یعنی یہ لوگ اگر اللہ کے پیغمبروں پر ایمان لاتے (جس میں خاتم النبیین ﷺ پر ایمان لانا بھی شامل ہے) اور کفر و معاصی سے بچتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اس کی جزا دی جاتی۔ جو اس سے بہتر ہے۔ جس کے بدلہ انہوں نے اپنے نفسوں کو بیچا۔ اگر وہ جانتے ہوتے تو آخرت کے ثواب کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور خیر کی طرف بڑھتے۔ آخرت کا تھوڑا سا ثواب بھی فانی دنیا کے بہت بڑے نفع سے بھی بہتر ہے۔ باقی اور فانی کا فرق خود سمجھ لینا چاہئے۔ جادوگر کی کیا سزا ہے اس کے بارے میں تفصیل ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) سے یہ منقول و مشہور ہے کہ جادوگر علی الاطلاق قتل کیا جائے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ جادوگر ہے اس کو یہ کہنا کہ میں اب سے جادو نہ کروں گا توبہ کرتا ہوں قبول نہیں کیا جائے گا۔ (ص 339 ج 1) ملا علی قاری (رح) تکملہ شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں کہ جو سحر کفر ہے اس کا اختیار کرنے والامرد مرتد ہوجانے کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور جادوگر عورت قتل نہیں کی جائے گی اس لیے کہ مرتدہ کو قتل نہیں کیا جاتا (وہ ہمیشہ قید میں رہے گی الا أن تتوب) اور جو سحر فسق کے درجے میں ہو اس میں سحر کی وجہ سے قتل نہ ہوگا لیکن اگر کوئی ایسا کام ہو جس سے کسی انسان کی ہلاکت ہوگئی یا مریض ہوگیا یا میاں بیوی میں جدائی کرا دی ہو تو زمین میں فساد کرنے کی وجہ سے قتل کیا جائے گا۔ اور اس صورت میں ساحر اور ساحرہ دونوں قتل کئے جائیں گے کیونکہ اس کی علت ارتدار نہیں بلکہ فساد فی الارض ہے 1 ھ۔ حضرت جندب بن کعب صحابی ؓ نے دیکھا کہ ایک آدمی کھیل کر رہا ہے اس نے ایک شخص کو ذبح کردیا اور اس کا سر جدا کردیا پھر اس کا سر واپس جوڑ دیا۔ لوگوں نے دیکھا تو چیخ اٹھے اور کہنے لگے کہ سبحان اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ حضرت جندب نے تلوار نکالی اور اس جادوگر کی گردن مار دی اور فرمایا اگر یہ سچا ہے تو اپنے نفس کو زندہ کرے۔ حضرت جندب کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ : یضرب ضربۃً فیکون امۃ واحدۃ کہ یہ ایک ایسی تلوار مارے گا جس کی وجہ سے یہ تنہا ایک امت کے برابر درجہ پالے گا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ج 1 ص 250) چونکہ اس جادوگر کے عمل سے لوگ متاثر ہو کر یوں سمجھ رہے تھے کہ یہ شخص مردوں کو زندہ کرتا ہے اس لیے رفع فساد کی وجہ سے اس کا قتل ضروری ہوا۔ تفسیر قرطبی میں اس قصے کو اس طرح لکھا ہے کہ ولید بن عقبہ (امیر عراق) کے پاس ایک شخص رسی پر چل رہا تھا اور گدھے کے پیچھے سے اس کے دم میں داخل ہوتا تھا اور اس کے منہ سے نکل جاتا تھا۔ حضرت جندب نے اس کو قتل کردیا۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے فرمایا تھا کہ میری امت میں وہ شخص ہوگا جس کو جندب کہا جائے گا وہ ایک مرتبہ ایسی تلوار مارے گا جس سے حق اور باطل کے درمیان تفریق کر دے گا۔ (ج 2 ص 47) مسئلہ : اگر قرآن و حدیث کے کلمات ہی سے عمل کیا جائے مگر ناجائز مقصد کے لیے استعمال کریں تو وہ بھی جائز نہیں۔ مثلاً کسی کو ناحق ضرر پہنچانے کے لیے کوئی تعویذ کیا جائے یا وظیفہ پڑھا جائے، اگرچہ وظیفہ اسماء الہیہ، یا آیات قرآنیہ ہی کا ہو وہ بھی حرام ہے۔ (معارف القرآن) مسئلہ : تعویذ گنڈے وغیرہ جو عامل کرتے ہیں ان میں بھی اگر جنات و شیاطین سے استمداد ہو تو بحکم سحر ہیں اور حرام ہیں اور اگر الفاظ مشتبہ ہوں معنی معلوم نہ ہوں اور شیاطین اور بتوں سے استمداد کا احتمال ہو تو بھی حرام ہے۔ فائدہ : عام طور پر عوام میں ایک قصہ مشہور ہے جو ہاروت ماروت اور زہرہ کے بارے میں ہے کہ ان دونوں فرشتوں کو قوت شہوانیہ دے دی گئی تھی، اور زمین میں اتار دئیے گئے تھے۔ وہ زمین میں آئے تو زہرہ سے شہوت والی مطلب براری کا ارادہ کیا اور اس کو آمادہ کرنے کی کوشش کی اس پر اس نے ان سے اسم اعظم پوچھ لیا جس کے ذریعہ وہ آسمان پر چلی گئی اور وہاں ستارہ بن گئی۔ ان دونوں فرشتوں سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کا عذاب چاہتے ہو یا آخرت کا۔ تو انہوں نے دنیا کے عذاب کو آخرت کے عذاب پر ترجیح دی اور وہ بابل کے کنویں میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں اور قیامت تک عذاب ہوگا۔ اس قصہ کو علامہ ابن جوزی نے دو طریق سے نقل کیا ہے۔ علامہ قرطبی اور صاحب روح المعانی نے بھی اس قصہ کی تردید کی ہے۔ قال القرطبی أنہ قول تدفعہ الاصول فی الملائکۃ ھم أمناء اللّٰہ علی وحیہ و سفراء ہ الی رسلہ لاَ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمُرَھُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ، بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ لاَ یَسْبِقُوْنَہٗ بالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ ، یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لاَ یَفْتُرُوْنَ وَ أما العقل فلا ینکر وقوع المعصیۃ من الملائکۃ و ان یوجد منھم خلاف ما کلفوہ و یخلق فیھم الشھوات اذ فی قدرۃ اللّٰہ تعالیٰ کل موھوم و من ھذا خوف الانبیاء و الاولیاء الفضلاء العلماء لکن وقوع ھذا الجائز لایدرک الا بالسمع ولم یصح (ص 52 ج 2) صاحب روح المعانی فرماتے ہیں : قد أنکرہ جماعۃ منھم القاضی عیاض، و ذکر أن ماذکرہ أھل الاخبار و نقلہ المفسرون فی قصۃ ھاروت و ماروت لم یزدمنہ شیء لا سقیم ولا صحیح عن رسول اللّٰہ ﷺ ۔ و لیس ھو شیئا یوخذ بالقیاس، و ذکر فی البحر أن جمیع ذلک لا یصح منہ شیء، ولم یصح أن رسول اللّٰہ ﷺ کان یلعن الزھرۃ۔ ولا ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھما خلافا لمن رواہٗ و قال الامام الرازی بعد أن ذکر الروایۃ فی ذلک ان ھذہ الروایۃ فاسدۃ مردودۃ غیر مقبولۃ و نص الشھاب العراقی : علی ان من اعتقد فی ھاروت و ماروت أنھما ملکان یعذبان علی خطیئتھما مع الزھرۃ فھو کافر باللّٰہ تعالیٰ العظیم فان الملائکۃ معصومون (لاَ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ۔ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ لاَ یَسْتَحْسِرُوْنَ یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لاَ یَفْتُرُوْنَ ) والزھرۃ کانت یوم خلق اللّٰہ تعالیٰ السمٰوت والارض والقول بأنھا تمثلت لھما فکان ما کان وردت الی مکانھا غیر معقول ولا مقبول۔ و اعترض الامام السیوطی علی من أنکر القصۃُ بان الامام احمد و ابن حبان و البیھقی وغیرھم رو وھا مرفوعۃ وموقوفۃ علی علی و ابن عباس و ابن عمر و ابن مسعود ؓ باسانید صحیحۃ یکاد الواقف علیھا یقطع بصحتھا لکثرتھا و قوۃ مخرجیھا و ذھب بعض المحققین : ان ماروی مروی حکایۃ لما قالہ الیھود و ھو باطل فی نفسہ و بطلانہ فی نفسہ لایتا فی صحۃ الروایۃ ولا یرد ما قالہ الامام السیوطی علیہ انما یرد علی المنکرین بالکلیۃ۔ (ج 1 ص 341) اقول صحۃ السند لا تستلزم صحۃ الروایۃ فان من لوازم الصحۃ اشیاء اخر غیر صحۃ السند ذکرھا العلماء فی کتب الاصول، فلو صح بعض الاسانید علی رای الامام السیوطی لا یستلزم منہ قبول الروایۃ۔
Top