Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 134
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
تِلْکَ أُمَّةٌ : یہ امت قَدْ : تحقیق خَلَتْ : جو گزر گئی لَهَا : اس کے لئے مَا کَسَبَتْ : جو اس نے کمایا وَ : اور لَكُمْ : تمہارے لئے مَا کَسَبْتُمْ : جو تم نے کمایا وَ : اور لَا : نہ تُسْئَلُوْنَ : تم سے پوچھا جائے گا عَمَّاکَانُوْا : اس کے بارے میں جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
وہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی، ان کے لیے وہ ہے جو انہوں نے عمل کیا، اور تمہارے لیے وہ ہے جو تم نے عمل کیا، اور تم سے اس چیز کا سوال نہ ہوگا جو وہ کیا کرتے تھے۔
یہودیوں کے اس غرور کا جواب کہ ہم نبیوں کی اولاد ہیں یہودیوں کو اس بات پر غرور تھا اور اب بھی ہے کہ ہم نبیوں کی اولاد ہیں اور ان کے نسل اور نسب میں ہونے کی وجہ سے ہم عذاب سے بچ جائیں گے۔ اس آیت میں صاف صاف اس بات کی تصریح فرما دی کہ وہ حضرات اپنے اپنے عقائد اور اعمال لے کر دنیا سے چلے گئے انہوں نے جو کچھ کیا وہ ان کے ساتھ ہے ان کے اعمال صالحہ ان کے کام آئیں گے اور تم نے جو کچھ کیا وہ تمہارے ساتھ ہے ان کے اعمال میں سے کوئی حصہ تمہیں نہ ملے گا۔ دوسروں کے اعمال کی وجہ سے خواہ مخواہ آس لگائے بیٹھے ہو جبکہ یہ آس اور امید قانون خداوندی کے خلاف ہے، تم اپنے عقائد اور اعمال اور کفر و ایمان کو دیکھو تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد ﷺ کی تکذیب کرتے ہو انجیل اور قرآن کو نہیں مانتے پھر بھی نجات کی امید لگائے ہوئے ہو۔ یہ بہت بڑی جہالت ہے وہ حضرات سابقین جن سے تم انتساب رکھتے ہو ان کے اعمال کی تم سے پوچھ تک نہ ہوگی اور نہ ان کا ذکر تمہارے سامنے آئے گا ان کے اعمال کا تمہیں نفع پہنچنا تو دور کی بات ہے۔ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ میں بھی بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو سید زادے، پیر زادے ہونے پر گھمنڈ کیے ہوئے ہیں تارک فرائض ہیں۔ مرتکب منہیات و محرمات ہیں۔ بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہیں لیکن وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم کسی کی نسل اور نسب میں ہونے کی وجہ سے بخش دیئے جائیں گے اور بہت سے جعلی جھوٹے دنیا دار پیروں نے اپنے عوام کو یہ دھوکہ دے رکھا ہے کہ تم ہمارے جھنڈے کے نیچے ہو گے جس نے ہم سے بیعت کرلی بس وہ بخشا بخشایا ہے یہ سب فریب ہے گمراہی ہے۔ قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔ (صحیح بخاری ص 702 ج 2) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کو اور اپنے اعزہ و اقربا کو پکارا۔ سب کو حق کی دعوت دی اور عمومی اور خصوصی خطاب فرمایا اس خطاب میں یہ بھی تھا کہ اے عباس بن عبدالمطلب میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، اور اے صفیہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا اور اے فاطمہ بنت محمد ﷺ میرے مال سے جو چاہو سوال کرو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ اپنا دین و ایمان اور عمل صالح اللہ کے ہاں کام آئے گا۔ جو مومن نہ ہوگا اس کو میری رشتہ داری کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ جب آنحضرت ﷺ نے اپنی رشتہ داری کے بارے میں ایسا فرما دیا تو دوسروں کی کیا مجال ہے کہ وہ نسب کی بنیاد پر بخشے جانے کی امید رکھیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : من بطأبہ عملہ لم یسرع بہٖ نسبہ۔ یعنی جس کا عمل دیر لگائے گا اس کا نسب جلدی کر کے آگے نہیں بڑھا دے گا۔ (ص 345)
Top