Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے وِّجْهَةٌ : ایک سمت ھُوَ : وہ مُوَلِّيْهَا : اس طرف رخ کرتا ہے فَاسْتَبِقُوا : پس تم سبقت لے جاؤ الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يَاْتِ بِكُمُ : لے آئے گا تمہیں اللّٰهُ : اللہ جَمِيْعًا : اکٹھا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْر : قدرت رکھنے والا
اور ہر جماعت کے لیے ایک جہت ہے، جس کی طرف وہ اپنا رخ کرنے والے ہیں۔ لہٰذا تم نیک کاموں کی طرف آگے بڑھو، جہاں کہیں بھی تم ہو گے اللہ تعالیٰ تم سب کو لے آئے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ہر ملت کا قبلہ الگ الگ ہے اس میں لکل کا مضاف الیہ محذوف ہے۔ ای لکل اھل ملۃ أو جماعۃ من المسلین والیھود و النصاریٰ یعنی ہر مذہب اور ملت اور ہر جماعت کا عبادتوں میں اپنا رخ الگ ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے۔ خواہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردیا گیا ہو۔ خواہ لوگوں نے کوئی جہت اپنے طور پر مقرر کرلی ہو پھر اگر نبی اکرم خاتم الانبیاء ﷺ کے لیے قبلہ ابراہیمی مقرر کردیا گیا جو دوسروں کے قبلہ سے مختلف ہے تو اس میں اعتراض اور تعجب کی کیا وجہ ہے۔ اور یہ معنی بھی لیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کا رخ مختلف بلاد و امصار اور مختلف آفاق و اطراف میں مختلف ہوتا ہے۔ چار جہات ( مشرق مغرب جنوب شمال) میں سے کوئی جہت بھی مسلمانوں کا قبلہ نہیں ہے بلکہ ان کا قبلہ کعبہ ہے اور کعبہ شریف کو رخ کرنے سے مختلف علاقوں کے لوگ مختلف جہات کی طرف نماز پڑھتے ہیں۔ رخ سب کا کعبہ شریف ہی کی طرف ہے کوئی مشرق کو رخ کیے ہوئے ہے کوئی مغرب کی طرف نماز پڑھتا ہے کسی کا قبلہ جنوب اور کسی کا قبلہ شمال کی طرف ہے۔ او کل قوم من المسلمین جھۃ و جانب من الکعبۃ یصلی الیھا جنوبیۃ او شمالیۃ او شرقیۃ او غربیۃ۔ (روح المعانی ص 3 ج 2) پھر فرمایا (فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ ) اے مومنو ! ان کاموں کی طرف آگے بڑھو اور پہل کرو جن میں، دارین میں سعادت حاصل ہو قبلہ کا استقبال بھی امر خداوندی کے مطابق کرو اور اس کے سوا دیگر احکام الہیہ میں بھی بڑھ چڑھ کر عمل کرو۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ الخیرات سے نمازیں مراد ہیں جب نماز کا وقت مامور بہ ہوجائے تو نماز کی طرف لپکنے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ پھر فرمایا (اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یَاْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو جس خطہ زمین میں ہو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی جزا دینے کے لیے تم سب کو جمع فرمائے گا۔ فرمانبرداری اور اعمال صالحہ کی اچھی جزا ملے گی اور برے کاموں کی سزا ملے گی۔ لہٰذا فرصت کو غنیمت جائیں اور موت اور حشر نشر سے غافل نہ ہوں اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت ہے۔ زندگی بخشنا موت دینا جمع کرنا جزا دینا سب اس کے لیے آسان ہے۔ یہ جو فرمایا کہ ” ہر جماعت کا الگ الگ قبلہ ہے پس تم نیک کاموں کی طرف سبقت کرو “ اس سے واضح ہو رہا ہے کہ مسلمان کا کام فضول بحثوں میں الجھنا نہیں جب یہ معلوم ہوگیا کہ اہل کتاب تمہارے قبلہ کی طرف رخ کرنیوالے نہیں اور تم ان کے قبلہ کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتے۔ تو اب بحث بلا ضرورت ہے اور فضول ہے اور وقت کا ضائع کرنا ہے ان بحثوں کو چھوڑ کر اپنے اصلی کام میں لگیں یعنی خیر کے کاموں کی طرف سبقت کریں جو آخرت میں اجر وثواب کا ذریعہ ہیں اور فاسْتَبِقُوْا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب بھی کبھی خیر کا موقع مل جائے تو فوراً اس کی طرف بڑھنا اور لپکنا چاہیے۔
Top