Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 208
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے ادْخُلُوْا : تم داخل ہوجاؤ فِي : میں السِّلْمِ : اسلام كَآفَّةً : پورے پورے وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْا : نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،
اسلام میں پورے طور پر داخل ہونے کا حکم آیت کے شان نزول کے بارے میں لکھا ہے کہ بعض صحابہ ؓ جو پہلے یہودی تھے انہوں نے سنیچر کے دن کی تعظیم کو باقی رکھنا چاہا جو شریعت موسوی میں تھی اور اونٹ کا گوشت کھانے سے پرہیز کرنا چاہا کیونکہ یہودیت کے زمانہ میں نہیں کھاتے تھے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ توریت بھی تو اللہ کی کتاب ہے، ہم اس کو تہجد کی نماز میں پڑھ لیا کریں (جیسا کہ قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے) اس پر آیت بالا نازل ہوئی اور حکم فرمایا کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ، شریعت محمدیہ کے آنے کے بعد اب کوئی شریعت باقی نہیں رہی۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ میں تمہارے پاس خوب روشن اور صاف شریعت لے کر آیا ہوں اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو ان کے لیے بھی اس کے سوا کوئی گنجائش نہ تھی کہ وہ میرا اتباع کریں۔ (معالم التنزیل ص 183 ج 1) حضرت جابر ؓ کی روایت مسند احمد اور شعب الایمان للبیہقی میں بھی ہے۔ (کمافی المشکوۃ ص 30) زندگی کے تمام شعبوں میں ہر شخص اسلام کے احکام کا پابند ہے : اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ اسلام کے احکام کو پورا پورا قبول کرو اور اس کے جملہ احکام پر عمل کرو، حاکم ہو یا محکوم بڑا ہو یا چھوٹا، شہری ہو یا دیہاتی، تاجر ہو یا کاری گر، کار خانہ دار ہو، مزدور ہو یا کسان، سب اسلام پر پوری طرح چلیں اور ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھے کہ وہ چلے تو میں بھی چلوں۔ ہر ایک اپنی ذمہ داری کو سامنے رکھے۔ بہت سے لوگوں نے یہ طریقہ بنا رکھا ہے کہ نماز روزہ اور ان کے علاوہ دو چار کاموں تک ہی اسلام کو محدود رکھتے ہیں اس کے علاوہ معیشت اور معاشرت، تجارت اور سیاست اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں میں اسلام کے احکام کی پاسداری نہیں کرتے جس طرح چاہیں تجارت کرلیں اور جو بھی چیز سامنے آجائے خرید لیں، یا بیچ دیں۔ جس محکمہ میں چاہیں ملازم ہوجائیں۔ حرام حلال کا کچھ خیال نہیں کیا جاتا۔ بیاہ شادی میں غیر شرعی طریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔ سراسر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ خوشی کے موقعہ پر ہم پر شرعی کوئی پابندی نہیں۔ حرام حلال کی بحثوں کو فضول سمجھتے ہیں، کوئی عالم اگر بتادے کہ تمہاری ملازمت حرام ہے یا تجارت میں سود ہے تو کہتے ہیں کہ مولوی ترقی سے روکتا ہے۔ جن قوموں کے دین میں چند تصورات اور توہمات اور چند اعمال کے علاوہ اور کوئی بھی پابندی نہیں ہے اپنے دین کو انہیں کے دین پر قیاس کرلیتے ہیں۔ (العیاذ باللہ) ہمارا دین جامع ہے، کامل ہے مکمل ہے اور زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے احکام تفصیل کے ساتھ اسلام نے نہ بتائے ہوں۔ بعض احکام پر عمل کرنا اور بعض کو چھوڑ دینا یہ وہی چیز ہے جس کو سورة بقرہ کے رکوع (10) میں یہودیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : ” کیا کتاب کے بعض حصہ پر ایمان لاتے ہو اور بعض حصہ کے منکر ہوتے ہو “ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مسلمان ہونے کے صرف دعوے دار ہی ہیں۔ اسلام کے فرائض تک پر عمل نہیں کرتے، اور کچھ لوگوں کو دینداری کا خیال تو ہے لیکن ان کی دینداری نماز تک یا ایک دو اعمال تک محدود ہے۔ اگر توجہ دلائی جائے کہ حرام ملازمت چھوڑ دو تو تیار نہیں اگر یوں کہا جائے کہ سود کا لین دین نہ کرو تو آمادہ نہیں اگر یوں کہو کہ حرام چیزیں فروخت نہ کرو تو کہتے ہیں کہ یہ روزی کا معاملہ ہے۔ اس کو کیسے چھوڑیں ؟ ان کی جاہلانہ بات کا مطلب یہ ہے کہ روزی کمانے میں گویا پورے آزاد ہیں۔ (العیاذ باللہ) اصحاب حکومت کی بےراہی : جن ممالک میں مسلمانوں کی حکومتیں ہیں وہاں کے ذمہ دار ان ہی طریقوں پر حکومتیں چلاتے ہیں جو کافروں سے سیکھے ہیں کچہریوں میں کافرانہ اور ظالمانہ قوانین کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ اسلام کے قانون کا نام آجائے تو کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ کافرانہ اقوال اور افعال کے باوجود اس کے دعوے دار ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اسلام پر پوری طرح عمل نہ کرنا بعض احکام کو ماننا بعض کو چھوڑنا یہ سب شیطانی حرکات ہیں۔ اسلام میں پورا پورا داخل ہونے کا حکم دینے کے بعد یہ بھی فرمایا کہ (وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ) شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو، اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ (اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ) (کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے) لوگ شیطان کو برا بھی کہتے ہیں اور اس پر لعنت بھی بھیجتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں کو بھی اختیار کرتے ہیں۔ یہ عجیب طریقہ ہے۔ پھر فرمایا :
Top