Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگو ! عبادت کرو اپنے رب کی جس نے تم کو پیدا فرمایا اور ان لوگوں کو بھی پیدا فرمایا جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ،
دعوت توحید اور دلائل توحید مومنین مخلصین اور کافرین اور منافقین کا ذکر کرنے کے بعد اب دلائل کے ساتھ توحید کی دعوت دی گئی اور اللہ جل شانہٗ کی شان خالقیت اور شان ربوبیت بیان فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور نعمت کا تذکرہ فرمایا جس کا مظاہرہ سب کے سامنے ہے اور ایک کم سمجھ آدمی بھی اس کو دیکھتا ہے۔ (اوّل): تو یہ فرمایا کہ تم اپنے رب کی عبادت کرو جو تمہاری پرورش فرماتا ہے اور یہی نہیں کہ صرف پرورش فرماتا ہے بلکہ اس نے تم کو وجود بھی بخشا ہے، ممکن ہے کوئی ناسمجھ یہ کہنے لگتا کہ مجھے تو میرے ماں باپ نے پیدا کیا، اس وہم کو دفع فرمانے کے لیے فوراً ہی یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ تم سے پہلے ہیں ان سب کو اسی نے پیدا فرمایا ہے اس نے وجود بھی دیا اور وہ وجود کو باقی رکھے ہوئے بھی ہے اور وجود کے باقی رہنے کے جو اسباب ہیں وہ بھی اسی نے پیدا فرمائے ہیں، پھر یہ فرمایا کہ جب اسی ذات پاک کی عبادت کو اختیار کرو گے اسی میں لگو گے تو تم کو صفت تقویٰ حاصل ہوگی۔ تقویٰ عربی زبان میں بچنے اور پرہیز کرنے کو کہتے ہیں اور اس کے بہت سے درجات ہیں۔ سب سے بڑا درجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک کا مراقبہ رکھے اور ہر وقت اسی کی طرف دل و دماغ کو متوجہ رکھے، اس کے لیے جیئے اور اسی کے لیے مرے، چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ کے مفہوم میں داخل ہے۔ جب کسی کو خلوت اور جلوت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کی ذات پاک کا استحضار رہے گا تو کہاں گناہ کرسکے گا اور جب گناہوں سے بچے گا تو ظاہر ہے دوزخ سے بھی محفوظ رہے گا۔ اسی لیے بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے ” تاکہ تم دوزخ سے بچو “۔ سب سے بڑا گناہ شرک ہے۔ شرک سے بھی بچے اور توحید کو اختیار کرے جو سب سے بڑی عبادت ہے اور چھوٹے بڑے گناہوں سے بھی پرہیز کرے، ایسا کرے گا تو ظاہر ہے کہ دوزخ سے ضرور اس کی حفاظت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور شان خالقیت کا مظاہرہ تو ہر چھوٹی بڑی چیز میں ہوتا ہے لیکن بہت واضح چیزیں جو سب کے سامنے ہیں اور کم سمجھ بھی جن کو سمجھتا اور جانتا ہے ان میں سے تین چیزیں بیان فرمائیں۔ جن میں سے اوّل یہ ہے کہ اس نے زمین کو پیدا فرمایا۔ یہ زمین سب کے سامنے ہے اس پر بستے ہیں اور رہتے سہتے ہیں اگر کوئی نابینا ہو تو وہ بھی یہ تو جانتا ہی ہے کہ میں کس چیز پر آباد ہوں کس چیز پر چل پھر رہا ہوں، جو زمین ہے اس کا وجود ہی بتاتا ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا بڑی قدرت والا ہے پھر زمین کا وجود محض وجود ہی نہیں بلکہ انسانوں کے لئے اس کا وجود بہت بڑی نعمت ہے ساری زمین انسانوں کے لئے بچھونا ہے جس پر رہتے سہتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں اس کے اتنے بڑے پھیلاؤ میں انسانوں کے رہنے کے مکانات بنانے، چلنے پھرنے، سفر کرنے، حاجتیں پوری کرنے کے مواقع ہیں اگر زمین پر پہاڑ ہی پہاڑ ہوتے یا پانی ہی پانی ہوتا تو اس پر رہنا دشوار ہوجاتا۔ زمین کے ساتھ ہی آسمان کا ذکر فرمایا اور وہ یہ کہ آسمان کو تمہارے لیے چھت بنایا۔ یہ چھت ستاروں سے مزین ہے، دیکھنے میں بھلی معلوم ہوتی ہے اس کی طرف نظر کرنے سے فرحت اور بشاشت محسوس ہوتی ہے۔ صاحب بیان القرآن نے اپنے رسالہ رفع البناء کے آخر میں لکھا ہے کہ بعض حکماء کا قول ہے کہ آسمان کی طرف دیکھنے کے دس فائدے ہیں۔ (1) غم کا کم ہونا (2) وسواس کی تقلیل (3) وہم اور خوف کا ازالہ (4) اللہ کی یاد (5) قلب میں اللہ کی عظمت کا پھیل جانا (6) افکار ردیہ کا جاتا رہنا (7) سوداوی مرض کے لیے نافع ہے (8) مشتاق کی تسلی (9) محبین کا مونس ہونا (10) دعا کرنے والوں کا قبلہ ہے۔ 1 ھ نقلہ عن کتاب الحکمۃ للغزالی۔
Top