Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 216
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ : تم پر فرض کی گئی الْقِتَالُ : جنگ وَھُوَ : اور وہ كُرْهٌ : ناگوار لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تَكْرَھُوْا : تم ناپسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تُحِبُّوْا : تم پسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ شَرٌّ : بری لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
فرض کیا گیا تم پر جنگ کرنا اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
جہاد کی فرضیت اور ترغیب مکہ مکرمہ کے زمانہ قیام میں مسلمان بہت ہی ضعیف تھے، تھوڑے سے تھے۔ کافروں کا تسلط تھا ان سے لڑنے اور جنگ کرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا اور نہ جنگ کرنے کی اجازت تھی، بالآخر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ قیام پذیر ہوگئے، یہاں قیام کرنے کے بعد ان لوگوں سے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی جو لڑنے کے لیے آمادہ ہوجائیں جیسا کہ سوررۂ حج میں فرمایا : (اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا) اس کے بعد وہ وقت بھی آیا کہ عام مشرکین سے قتال کرنے کا حکم ہوگیا اگرچہ وہ ابتداء نہ کریں۔ (قرطبی ص 38 ج 3) آیت بالا کے عموم سے بظاہر یہی مستفاد ہوتا ہے کہ کفار سے جنگ کرنا ہر مسلمان پر نماز روزہ کی طرح فرض عین ہے لیکن سورة برأت کی آیت (وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ ) (الایۃ) سے اور بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قتال کرنا ہر مسلمان پر ہر وقت فرض عین نہیں ہے لیکن اسی لیے فقہاء نے اس بارے میں تفصیل لکھی ہے اور تحریر فرمایا ہے کہ بعض حالات میں فرض عین اور عام حالات میں فرض کفایہ ہے کافروں سے جنگ کرنا جارحانہ بھی مشروع ہے اور مد افعانہ بھی جیسا کہ قرآن و حدیث کی نصوص عامہ سے ثابت ہے، عام طور سے کافروں سے جنگ کرنے کو جہاد کہا جاتا ہے لفظ جہاد جہد سے لیا گیا ہے جو محنت اور کوشش کے معنی میں ہے یہ اپنے عمومی معنی کے اعتبار سے ہر اس محنت اور کوشش کو شامل ہے جو اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے ہو، سورة برأت میں فرمایا (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) (نکل کھڑے ہو ہلکے ہو یا بھاری اور جہاد کرو اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، اللہ کی راہ میں یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو) اس آیت میں مال اور جان دونوں سے جہاد کرنے کا حکم فرمایا ہے اور سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جاھد المشرکین بأموالکم و انفسکم و ألسنتکم (باب کراھیۃ ترک الغزو) اس حدیث میں زبانوں سے جہاد کرنے کا حکم بھی فرمایا ہے۔ زبان سے جہاد کرنے میں بہت سی باتیں آگئیں، کافروں سے مناظرہ کرنا، ان کے خلاف تقریریں کرنا مسلمانوں کو جہاد کے لیے ترغیب دینا اور آمادہ کرنا وغیرہ، مسلمانوں پر ہر قسم کا جہاد باقی رکھنا لازم ہے۔ علامہ ابوبکر جصاص احکام القرآن ص 113 ج 3 میں لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف اور امام محمد اور امام مالک اور تمام فقہاء امصار کا قول ہے کہ جہاد قیامت تک فرض ہے۔ لیکن اس میں اتنی تفصیل ہے کہ عام حالات میں فرض کفایہ ہے مسلمانوں کی ایک جماعت اس میں مشغول رہے گی تو باقی مسلمانوں کو اس کے ترک کرنے کی گنجائش ہوگی، اور یہ بھی لکھا ہے کہ تمام مسلمانوں کا یہ اعتقاد ہے کہ مسلمانوں کے ممالک کی سرحدوں کے رہنے والے مسلمان اگر طاقتور نہ ہوں اور ان میں کافروں سے مقابلہ کی طاقت نہ ہو جس کی وجہ سے انہیں اپنے شہروں اور اپنی جانوں اور اپنے بال بچوں پر دشمنوں کی طرف سے خوف ہو تو ساری امت پر فرض ہوگا کہ وہ اپنے گھروں سے نکلیں اور کافروں کے حملہ سے مسلمانوں کی حفاظت کریں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ امت میں کسی کا بھی یہ قول نہیں ہے کہ جب (کسی علاقہ میں) مسلمانوں کو اپنی جانوں کے قتل ہونے کا اور بچوں کے قید ہونے کا خطرہ ہو تو دوسرے (علاقہ کے) مسلمانوں کو ان کی مدد چھوڑ کر گھر میں بیٹھنا جائز ہو۔ پھر لکھا ہے کہ امام المسلمین پر اور عامتہ المسلمین پر لازم ہے کہ ہمیشہ کافروں سے جنگ کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ اسلام قبول کریں یا جزیہ ادا کریں۔ (ثم قال : و ھو مذھب أصحابنا و من ذکرنا من السلف المقداد بن الأسود و أبی طلحۃ فی آخرین من الصحابۃ و التابعین و قال حذیفۃ بن الیمان : الاسلام ثمانیۃ أسھم و ذکر سھما منھا الجھاد) علامہ جصاص نے جہاد کی فرضیت پر متعدد آیات قرآنیہ نقل کی ہیں۔ مثلاً (وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنَ لِلّٰہِ ) اور (قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ ) (الآیۃ) اور (قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَ لَا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) ّ (الایۃ) اور (فَلاَ تَہِنُوْا وَتَدْعُوْا اِِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ) اور (فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ ) اور (وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً ) وغیرھا من الآیات صاحب ہدایۃ لکھتے ہیں کہ جہاد فرض کفایہ ہے، مسلمانوں کی ایک جماعت اگر اس فریضہ پر قائم رہے تو باقی مسلمانوں سے ساقط ہوجائے گا اور اگر کوئی بھی جہاد میں مشغول نہ رہے تو سب گنہگار ہوں گے۔ پھر لکھتے ہیں کہ کافروں سے قتال کرنا واجب ہے۔ اگرچہ وہ خود سے جنگ میں پہل نہ کریں، اور اگر مسلمانوں کے کسی شہر پر دشمن چڑھ آئیں تو تمام مسلمانوں پر ان کا دفاع لازم ہوگا۔ اس صورت میں عورت بھی شوہر کی اجازت کے بغیر نکل کھڑی ہو اور غلام بھی آقا کی اجازت کے بغیر میدان میں آجائے، اس لیے کہ اس صورت میں دشمنوں سے جنگ کرنا فرض عین ہوجاتا ہے۔ (ہدایہ کتاب السیر) جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا جہاد اور قتال اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اور اللہ کا دین پھیلانے کے لیے ہے اور جنگ برائے جنگ نہیں ہے اور جہاد کے لیے مستقل احکام ہیں جو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں۔ جہاد کے بعض احکام : صاحب ہدایہ لکھتے ہیں کہ جب مسلمان کافروں کے ملک میں داخل ہوں اور ان کے کسی شہر یا قلعہ کا محاصرہ کرلیں تو ان کو اسلام کی دعوت دیں اگر وہ دعوت قبول کرلیں اور اسلام لے آئیں تو جنگ کرنے سے رک جائیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ (لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ ) کی گواہی دیں اور مجھ پر اور میرے لائے ہوئے دین پر ایمان لائیں۔ (کما رواہ مسلم فی روایۃ) اور اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کریں تو ان کو جزیہ ادا کرنے کی دعوت دیں۔ اگر وہ جزیہ ادا کرنا منظور کرلیں تو پھر ان کے وہی حقوق ہو نگے جو مسلمانوں کے ہیں اور ان کی وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو (ملک کی حفاظت کے سلسلے میں) مسلمانوں پر عائد ہوں گی (لیکن جزیہ کی دعوت مشرکین عرب کو نہیں دی جائے گی ان کے لیے اسلام ہے یا تلوار ہے) جن لوگوں کو دعوت اسلام نہیں پہنچی ان کو دعوت دئیے بغیر جنگ کرنا جائز نہیں۔ اور جن لوگوں کو دعوت اسلام پہنچ چکی ہے ان کے بارے میں مستحب ہے کہ پہلے ان کو دعوت جائے پھر قتال کیا جائے۔ اگر کفار قبول اسلام سے بھی انکاری ہوں اور جزیہ دینے پر بھی راضی نہ ہوں تو اللہ سے مددطلب کرکے ان سے جنگ کی جائے اور عورتوں کو اور بچوں کو اور بہت بوڑھے کو اور اپاہج کو اور اندھے کو قتل نہ کیا جائے۔ ہاں اگر ان میں سے کوئی شخص امور حرب میں رائے رکھنے والاہو یا عورت بادشاہ بنی ہوئی ہو تو ان کو قتل کردیا جائے (من الھدایۃ باب کیفیۃ القتال) مسلمانوں نے جب سے جہاد چھوڑا ہے دشمنوں نے ان پر قابو پایا ہوا ہے۔ اور ایسے معاہدوں میں جکڑ دیا ہے جن کی وجہ سے وہ کافروں پر حملہ نہ کرسکیں اور کافروں کا اپنا یہ حال ہے کہ معاہدوں کی پاسداری کے بغیر جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ سراسر خیر ہی ہے اس سے اسلام پھیلتا ہے کافروں پر حجت قائم ہوتی ہے۔ مسلمانوں میں قوت آجاتی ہے۔ دشمن مغلوب ہوتے ہیں اور مغلوب رہتے ہیں۔ مسلمان باعزت زندہ رہتے ہیں۔ اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ کرنا دشمنان دین کے مشوروں پر چلنا اور ان سے دبنا اسی نے تو عالم میں مسلمانوں کی ساکھ خراب کر رکھی ہے۔ مسلمانوں نے خدمت اسلام کے جذبہ کو چھوڑ دیا۔ حب جاہ، حب اقتدار نے ان کے چھوٹے چھوٹے ملک بنا دئیے، ہر ایک اپنے اقتدار کی ہوس میں ہے اور اقتدار باقی رکھنے کے لیے دشمنوں کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ اس طوائف الملو کی نے مسلمانوں کی طاقت کو منتشر کر رکھا ہے۔ آپس میں لسانی عصبیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کی جانوں کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔ دشمنوں کی شہہ پر اپنی و حدت ختم کر رکھی ہے۔ سارے عالم کے مسلمانوں کا اگر ایک ہی ملک ہوتا اور ایک ہی امیر المومنین ہوتا سارے مسلمان اسلام ہی کے لیے سوچتے اور اسی کے لیے جیتے اور اسی کے لیے مرتے تو کسی دشمن کی ہمت نہ تھی کہ آنکھ اٹھا کر دیکھتا، دشمنوں نے عصبیتیں سمجھا کر بہت سارے چھوٹے چھوٹے ملک بھی بنوا دئیے اور جہاد سے بھی دور کردیا۔ لہٰذا اپنے قابو میں کچھ نہ رہا، ہمت کر کے آپس میں ایک ہوں تو اب بھی انشاء اللہ حال ٹھیک ہوجائے گا۔ مجاہدین کے فضائل حضرت ابوہریرہ، حضرت سہل بن سعد اور حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام کو نکلناساری دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے۔ (صحیح بخاری ص 392 ج 1) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ضرورمیری خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔ (صیح بخاری ص 392 ج 1) حضرت عبدالرحمن بن جبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی بندے کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہوگئے اسے دوزخ کی آگ نہ چھوئے گی۔ (بخاری ص 394 ج 1) حضرت انس بن مالک ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل کیا کہ جو بھی کوئی شخص جنت میں داخل ہوگا وہ دنیا میں واپس آنے کی آرزو نہ کرے گا خواہ اس کو وہ سب کچھ مل جائے جو دنیا میں ہے سوائے شہید کے۔ وہ وہاں جو اپنا اعزاز دیکھے گا اس کی وجہ سے آرزو کرے گا کہ دنیا میں واپس چلا جاتا اور دس مرتبہ قتل کیا جاتا۔ (صحیح بخاری ص 395 ج 1) حضرت سلمان فارسی ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ کی راہ میں ایک دن ایک رات اسلامی ملک کی سرحد کی حفاظت میں گزارنا ایک ماہ کے روزے رکھنے اور راتوں رات ایک ماہ نمازوں میں قیام کرنے سے بہتر ہے۔ اگر یہ شخص اسی حالت میں وفات پا گیا تو (ثواب کے اعتبار سے) اس کا وہ عمل جاری رہے گا جو عمل وہ کیا کرتا تھا اور اس کا رزق جاری رہے گا (اور قبر میں) فتنہ ڈالنے والوں سے پر امن رہے گا۔ (صحیح مسلم ص 142 ج 2) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس نے جہاد نہیں کیا اور اس کے نفس میں جہاد کا خیال بھی نہ آیا تو وہ نفاق کے ایک شعبہ پر مرگیا۔ (صحیح مسلم ص 141 ج 2) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی ہوا اور اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس کی راہ میں کون زخمی ہوتا ہے تو وہ شخص قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا۔ رنگ تو خون کا ہوگا اور خوشبو مشک کی ہوگی۔ (صحیح بخاری ص 313 ج 2 صحیح مسلم ص 123 ج 2) جہاد میں مال خرچ کرنے کا ثواب : اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے۔ ایک شخص نے جہاد کے لیے ایک اونٹنی پیش کردی جس کو مہار لگی ہوئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تیرے لیے اس کے عوض قیامت کے دن سات سو اونٹنیاں ہوں گی ہر ایک کو مہار لگی ہوئی ہوگی (صحیح مسلم ص 137 ج 2) (یعنی مہار لگی ہوئی سات سو اونٹنیاں خرچ کرنے کا ثواب ملے گا) ۔ جہاد میں شرکت کے لیے جانے والے کو سامان دے دینا جس سے وہ جنگ کرے اور کھائے پیئے اس کا بھی بہت بڑا ثواب ہے۔ حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس نے کسی فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے کو سامان دیا اس نے (بھی) جہاد کیا اور جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے گھر والوں کی خدمت میں خیر کے ساتھ رہا اس نے بھی جہاد کیا۔ (صحیح بخاری ص 399 ج 1) جہاد پر دشمنان اسلام کا اعتراض اور اس کا جواب : دشمنان اسلام نے جہاد کو بہت مکروہ طریقہ پر پیش کیا ہے اول تو اسلام کی دشمنی میں اسلام کی دعوت کو نہیں سمجھتے۔ اسلام کی دعوت یہ ہے کہ سارے انسان اللہ کو وحدہ لاشریک مانیں اس کے سب رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لائیں۔ خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا نبی اور رسول مانیں، قرآن پر ایمان لائیں اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی طرف سے جو شریعت پیش کی ہے اس کو مانیں، جو شخص یہ سب قبول کرے گا وہ مسلم ہوگا۔ اللہ کا فرمانبر دار ہوگا۔ مستحق جنت ہوگا۔ اور جو شخص اس دین و شریعت کو قبول نہ کرے گا۔ وہ کافر ہوگا۔ مستحق دوزخ ہوگا۔ ہمیشہ ہمیشہ آگ کے دائمی عذاب میں رہے گا۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے جب مسلمان کافروں سے جنگ کریں تو انہیں پہلے اسلام کی دعوت دیں اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو کوئی لڑائی نہیں جنگ نہیں۔ قتال نہیں، اگر اسلام کو قبول نہ کریں تو ان سے جزیہ دینے کو کہا جائے گا۔ پھر اگر جزیہ دینا بھی قبول نہ کریں تو جنگ کی جائے۔ جہاد کا مقصود اعلی کافروں کو دین حق کی طرف بلانا ہے تاکہ وہ جنت کے مستحق ہوجائیں اگر جنگ کرکے کسی قوم کو دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کرلیا تو اس میں ان کے ساتھ احسان ہی کیا، کسی قوم کے تھوڑے سے افراد جنگ میں کام آگئے اور اکثر افراد نے اسلام قبول کرلیا تو مجموعی حیثیت سے اس قوم کا فائدہ ہی ہوگا، اگر کوئی قوم اسلام قبول نہ کرے اور جزیہ دینے پر راضی ہوجائے اور اس طرح مسلمانوں کی عملداری میں رہنا قبول کرے تو اس میں بھی اس قوم کا فائدہ ہے کہ دنیاوی اعتبار سے ان کی جانیں محفوظ ہوگئیں اور آخرت کے اعتبار سے یہ فائدہ ہوا کہ انہیں دین اسلام کے بارے میں غور کرنے کا موقع مل گیا۔ مسلمانوں کی اذانیں سنیں گے، نمازیں دیکھیں گے۔ مسلمانوں کا جو اللہ سے تعلق ہے اور جو مخلوق کے ساتھ ان کے معاملات ہیں وہ سامنے آئیں گے۔ مسلمانوں کے زہد وتقویٰ سے متاثر ہوں گے۔ اس طرح سے اقرب ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں اور کفر سے بچ جائیں اور آخرت کے عذاب سے محفوظ ہوجائیں۔ رہا جزیہ تو وہ ان کی جانوں کی حفاظت کا بدلہ ہے اور وہ بھی سب پر نہیں ہے۔ اور زیادہ نہیں ہے۔ اس ساری تفصیل سے سمجھ لینا چاہیے کہ جہاد میں کافروں کی خیر خواہی پیش نظر ہے اگر کافروں کی کوئی جماعت اسلام بھی قبول نہ کرے اور جزیہ دینا بھی منظور نہ کرے تو ان کے ساتھ جنگ اور قتل و قتال کا معاملہ ہوگا، کافر اللہ کا باغی ہے۔ کفر بہت بڑی بغاوت ہے۔ مجازی حکومتوں میں سے کسی حکومت کا کوئی فردیا جماعت بغاوت کرے تو اس کو سخت سے سخت سزا دی جاتی ہے اللہ کے باغی جو اس کی زمین پر بستے ہیں اس کا دیاکھاتے ہیں اس کی عطا کی ہوئی نعمتیں کام میں لاتے ہیں مگر اللہ پر ایمان نہیں لاتے اگر اللہ کو مانتے ہیں تو اس کے ساتھ غیر اللہ کی بھی عبادت کرتے ہیں۔ بتوں کو پوجتے ہیں اور بہت سے خدا مانتے ہیں ایسے لوگ اس قابل کہاں ہیں کہ خدا کی زمین پر زندہ رہیں، اللہ کے وفادار بندے جنہوں نے اللہ کے دین کو قبول کرلیا اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں پھر ان باغیوں کے منکر ہونے کے بعد اللہ کے وفادار بندے ان کو قتل کردیں تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ؟ دنیا سے کفر و شرک مٹانے کے لیے اور خالق ومالک جل مجدہ، کے باغیوں کی سرکوبی کے لیے جو اسلام میں جہاد شروع کیا گیا ہے اس پر تو دشمنوں کو اعتراض ہے۔ لیکن صدیوں دشمنان اسلام خاص کر یورپ کے لوگ جو ایشیا کے ممالک پر قبضہ کرتے رہے ہیں اور اس سلسلہ میں جو لاکھوں کروڑوں خون ہوئے ہیں۔ 1857 ء میں جو انگریزوں نے ہندوستانیوں کا قتل عام کیا ہے اور 1941 ء اور 1942 ء میں جو عالمی جنگیں ہوئی تھیں اور ہیرو شیما پر جو بم پھینکا گیا اور ایک طویل زمانہ تک جو صلیبی جنگیں ہوئی ہیں جن میں لاکھوں انسان تہ تیغ ہوئے یہ سب کچھ کونسی خیر پھیلانے کے لیے ہوئے ؟ کیا اس میں ملک گیری کی ہوس اور کفر و شرک پھیلانے کے عزائم اور دین اسلام کو مٹانے کے ارادے نہیں تھے ؟ یہ ان لوگوں کی حرکتیں ہیں جو سیدنا حضرت عیسیٰ علی نبینا و (علیہ السلام) سے نسبت رکھنے کے جھوٹے دعوے دار ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم یہ تھی کہ کوئی شخص تمہارے رخسار پر ایک طمانچہ مارے تو دوسرا رخسار بھی اس کے سامنے کردو، اور مشرکین ہند کو دیکھو جن کے یہاں ہتھیا کرنا بہت بڑا پاپ ہے جو چوہا مارنے کو برا جانتے ہیں وہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور برابر فساد کرتے ہیں اور اسلامی جہاد پر اعتراض کرنے والے اپنے آئینہ میں اپنا منہ نہیں دیکھتے اور جو لوگ اللہ کے باغی ہیں ان کی بغاوت کو کچلنے والوں کے جہاد اور قتال پر اعتراض کرتے ہیں، سچ ہے۔ اپنے عیبوں کی کہاں آپ کو کچھ پروا ہے ؟ غلط الزام بھی اوروں پر لگا رکھا ہے ! یہ ہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے ؟ ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو : آیت بالا میں جہاد کی فرضیت بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا : (وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْءًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ) (کہ ممکن ہے تمہیں کوئی چیز ناگوار ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ممکن ہے کہ تمہیں کوئی چیز محبوب ہو اور وہ تمہارے لیے بری ہو) سیاق کلام کے اعتبار سے تو اس کا تعلق جہاد اور قتال سے ہے کہ طبعی طور پر جہاد ناگوار معلوم ہوتا ہے لیکن نتائج اور ثمرات کے اعتبار سے تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور جہاد چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ جانا اور کاروبار میں لگنا تمہاری محبوب چیز ہے لیکن حقیقت میں جہاد کا چھوڑ دینا تمہارے حق میں شر ہے، اور اس کے چھوڑ دینے سے بہت سی خیر سے محرومی ہے اور برے نتائج سامنے آنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن انداز بیان ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ جہاد کے علاوہ بھی بہت سے امور کو شامل ہے، عموماً انسان بعض چیزوں کو مکروہ جانتا ہے لیکن اس کے لیے وہ بہتر ہوتی ہیں اور بہت سی چیزوں کو پسند کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اس کے لیے مضر ہوتی ہیں اور یہ ایسی بات ہے جس کا رات دن تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا خیر اسی میں ہے کہ اللہ کے احکام مانیں اور ان ہی پر چلیں۔ آخر میں ارشاد فرمایا : (وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) کہ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے، کیونکہ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے۔ اسے اپنی مخلوق کا نفع و ضرر اور مصلحت سب کچھ معلوم ہے۔
Top