Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 216
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠ ۧ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ
: تم پر فرض کی گئی
الْقِتَالُ
: جنگ
وَھُوَ
: اور وہ
كُرْهٌ
: ناگوار
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَعَسٰٓى
: اور ممکن ہے
اَنْ
: کہ
تَكْرَھُوْا
: تم ناپسند کرو
شَيْئًا
: ایک چیز
وَّھُوَ
: اور وہ
خَيْرٌ
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَعَسٰٓى
: اور ممکن ہے
اَنْ
: کہ
تُحِبُّوْا
: تم پسند کرو
شَيْئًا
: ایک چیز
وَّھُوَ
: اور وہ
شَرٌّ
: بری
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
وَاَنْتُمْ
: اور تم
لَا تَعْلَمُوْنَ
: نہیں جانتے
فرض کیا گیا تم پر جنگ کرنا اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
جہاد کی فرضیت اور ترغیب مکہ مکرمہ کے زمانہ قیام میں مسلمان بہت ہی ضعیف تھے، تھوڑے سے تھے۔ کافروں کا تسلط تھا ان سے لڑنے اور جنگ کرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا اور نہ جنگ کرنے کی اجازت تھی، بالآخر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ قیام پذیر ہوگئے، یہاں قیام کرنے کے بعد ان لوگوں سے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی جو لڑنے کے لیے آمادہ ہوجائیں جیسا کہ سوررۂ حج میں فرمایا : (اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا) اس کے بعد وہ وقت بھی آیا کہ عام مشرکین سے قتال کرنے کا حکم ہوگیا اگرچہ وہ ابتداء نہ کریں۔ (قرطبی ص 38 ج 3) آیت بالا کے عموم سے بظاہر یہی مستفاد ہوتا ہے کہ کفار سے جنگ کرنا ہر مسلمان پر نماز روزہ کی طرح فرض عین ہے لیکن سورة برأت کی آیت (وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ ) (الایۃ) سے اور بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قتال کرنا ہر مسلمان پر ہر وقت فرض عین نہیں ہے لیکن اسی لیے فقہاء نے اس بارے میں تفصیل لکھی ہے اور تحریر فرمایا ہے کہ بعض حالات میں فرض عین اور عام حالات میں فرض کفایہ ہے کافروں سے جنگ کرنا جارحانہ بھی مشروع ہے اور مد افعانہ بھی جیسا کہ قرآن و حدیث کی نصوص عامہ سے ثابت ہے، عام طور سے کافروں سے جنگ کرنے کو جہاد کہا جاتا ہے لفظ جہاد جہد سے لیا گیا ہے جو محنت اور کوشش کے معنی میں ہے یہ اپنے عمومی معنی کے اعتبار سے ہر اس محنت اور کوشش کو شامل ہے جو اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے ہو، سورة برأت میں فرمایا (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) (نکل کھڑے ہو ہلکے ہو یا بھاری اور جہاد کرو اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، اللہ کی راہ میں یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو) اس آیت میں مال اور جان دونوں سے جہاد کرنے کا حکم فرمایا ہے اور سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جاھد المشرکین بأموالکم و انفسکم و ألسنتکم (باب کراھیۃ ترک الغزو) اس حدیث میں زبانوں سے جہاد کرنے کا حکم بھی فرمایا ہے۔ زبان سے جہاد کرنے میں بہت سی باتیں آگئیں، کافروں سے مناظرہ کرنا، ان کے خلاف تقریریں کرنا مسلمانوں کو جہاد کے لیے ترغیب دینا اور آمادہ کرنا وغیرہ، مسلمانوں پر ہر قسم کا جہاد باقی رکھنا لازم ہے۔ علامہ ابوبکر جصاص احکام القرآن ص 113 ج 3 میں لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف اور امام محمد اور امام مالک اور تمام فقہاء امصار کا قول ہے کہ جہاد قیامت تک فرض ہے۔ لیکن اس میں اتنی تفصیل ہے کہ عام حالات میں فرض کفایہ ہے مسلمانوں کی ایک جماعت اس میں مشغول رہے گی تو باقی مسلمانوں کو اس کے ترک کرنے کی گنجائش ہوگی، اور یہ بھی لکھا ہے کہ تمام مسلمانوں کا یہ اعتقاد ہے کہ مسلمانوں کے ممالک کی سرحدوں کے رہنے والے مسلمان اگر طاقتور نہ ہوں اور ان میں کافروں سے مقابلہ کی طاقت نہ ہو جس کی وجہ سے انہیں اپنے شہروں اور اپنی جانوں اور اپنے بال بچوں پر دشمنوں کی طرف سے خوف ہو تو ساری امت پر فرض ہوگا کہ وہ اپنے گھروں سے نکلیں اور کافروں کے حملہ سے مسلمانوں کی حفاظت کریں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ امت میں کسی کا بھی یہ قول نہیں ہے کہ جب (کسی علاقہ میں) مسلمانوں کو اپنی جانوں کے قتل ہونے کا اور بچوں کے قید ہونے کا خطرہ ہو تو دوسرے (علاقہ کے) مسلمانوں کو ان کی مدد چھوڑ کر گھر میں بیٹھنا جائز ہو۔ پھر لکھا ہے کہ امام المسلمین پر اور عامتہ المسلمین پر لازم ہے کہ ہمیشہ کافروں سے جنگ کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ اسلام قبول کریں یا جزیہ ادا کریں۔ (ثم قال : و ھو مذھب أصحابنا و من ذکرنا من السلف المقداد بن الأسود و أبی طلحۃ فی آخرین من الصحابۃ و التابعین و قال حذیفۃ بن الیمان : الاسلام ثمانیۃ أسھم و ذکر سھما منھا الجھاد) علامہ جصاص نے جہاد کی فرضیت پر متعدد آیات قرآنیہ نقل کی ہیں۔ مثلاً (وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنَ لِلّٰہِ ) اور (قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ ) (الآیۃ) اور (قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَ لَا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) ّ (الایۃ) اور (فَلاَ تَہِنُوْا وَتَدْعُوْا اِِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ) اور (فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ ) اور (وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً ) وغیرھا من الآیات صاحب ہدایۃ لکھتے ہیں کہ جہاد فرض کفایہ ہے، مسلمانوں کی ایک جماعت اگر اس فریضہ پر قائم رہے تو باقی مسلمانوں سے ساقط ہوجائے گا اور اگر کوئی بھی جہاد میں مشغول نہ رہے تو سب گنہگار ہوں گے۔ پھر لکھتے ہیں کہ کافروں سے قتال کرنا واجب ہے۔ اگرچہ وہ خود سے جنگ میں پہل نہ کریں، اور اگر مسلمانوں کے کسی شہر پر دشمن چڑھ آئیں تو تمام مسلمانوں پر ان کا دفاع لازم ہوگا۔ اس صورت میں عورت بھی شوہر کی اجازت کے بغیر نکل کھڑی ہو اور غلام بھی آقا کی اجازت کے بغیر میدان میں آجائے، اس لیے کہ اس صورت میں دشمنوں سے جنگ کرنا فرض عین ہوجاتا ہے۔ (ہدایہ کتاب السیر) جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا جہاد اور قتال اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اور اللہ کا دین پھیلانے کے لیے ہے اور جنگ برائے جنگ نہیں ہے اور جہاد کے لیے مستقل احکام ہیں جو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں۔ جہاد کے بعض احکام : صاحب ہدایہ لکھتے ہیں کہ جب مسلمان کافروں کے ملک میں داخل ہوں اور ان کے کسی شہر یا قلعہ کا محاصرہ کرلیں تو ان کو اسلام کی دعوت دیں اگر وہ دعوت قبول کرلیں اور اسلام لے آئیں تو جنگ کرنے سے رک جائیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ (لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ ) کی گواہی دیں اور مجھ پر اور میرے لائے ہوئے دین پر ایمان لائیں۔ (کما رواہ مسلم فی روایۃ) اور اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کریں تو ان کو جزیہ ادا کرنے کی دعوت دیں۔ اگر وہ جزیہ ادا کرنا منظور کرلیں تو پھر ان کے وہی حقوق ہو نگے جو مسلمانوں کے ہیں اور ان کی وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو (ملک کی حفاظت کے سلسلے میں) مسلمانوں پر عائد ہوں گی (لیکن جزیہ کی دعوت مشرکین عرب کو نہیں دی جائے گی ان کے لیے اسلام ہے یا تلوار ہے) جن لوگوں کو دعوت اسلام نہیں پہنچی ان کو دعوت دئیے بغیر جنگ کرنا جائز نہیں۔ اور جن لوگوں کو دعوت اسلام پہنچ چکی ہے ان کے بارے میں مستحب ہے کہ پہلے ان کو دعوت جائے پھر قتال کیا جائے۔ اگر کفار قبول اسلام سے بھی انکاری ہوں اور جزیہ دینے پر بھی راضی نہ ہوں تو اللہ سے مددطلب کرکے ان سے جنگ کی جائے اور عورتوں کو اور بچوں کو اور بہت بوڑھے کو اور اپاہج کو اور اندھے کو قتل نہ کیا جائے۔ ہاں اگر ان میں سے کوئی شخص امور حرب میں رائے رکھنے والاہو یا عورت بادشاہ بنی ہوئی ہو تو ان کو قتل کردیا جائے (من الھدایۃ باب کیفیۃ القتال) مسلمانوں نے جب سے جہاد چھوڑا ہے دشمنوں نے ان پر قابو پایا ہوا ہے۔ اور ایسے معاہدوں میں جکڑ دیا ہے جن کی وجہ سے وہ کافروں پر حملہ نہ کرسکیں اور کافروں کا اپنا یہ حال ہے کہ معاہدوں کی پاسداری کے بغیر جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ سراسر خیر ہی ہے اس سے اسلام پھیلتا ہے کافروں پر حجت قائم ہوتی ہے۔ مسلمانوں میں قوت آجاتی ہے۔ دشمن مغلوب ہوتے ہیں اور مغلوب رہتے ہیں۔ مسلمان باعزت زندہ رہتے ہیں۔ اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ کرنا دشمنان دین کے مشوروں پر چلنا اور ان سے دبنا اسی نے تو عالم میں مسلمانوں کی ساکھ خراب کر رکھی ہے۔ مسلمانوں نے خدمت اسلام کے جذبہ کو چھوڑ دیا۔ حب جاہ، حب اقتدار نے ان کے چھوٹے چھوٹے ملک بنا دئیے، ہر ایک اپنے اقتدار کی ہوس میں ہے اور اقتدار باقی رکھنے کے لیے دشمنوں کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ اس طوائف الملو کی نے مسلمانوں کی طاقت کو منتشر کر رکھا ہے۔ آپس میں لسانی عصبیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کی جانوں کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔ دشمنوں کی شہہ پر اپنی و حدت ختم کر رکھی ہے۔ سارے عالم کے مسلمانوں کا اگر ایک ہی ملک ہوتا اور ایک ہی امیر المومنین ہوتا سارے مسلمان اسلام ہی کے لیے سوچتے اور اسی کے لیے جیتے اور اسی کے لیے مرتے تو کسی دشمن کی ہمت نہ تھی کہ آنکھ اٹھا کر دیکھتا، دشمنوں نے عصبیتیں سمجھا کر بہت سارے چھوٹے چھوٹے ملک بھی بنوا دئیے اور جہاد سے بھی دور کردیا۔ لہٰذا اپنے قابو میں کچھ نہ رہا، ہمت کر کے آپس میں ایک ہوں تو اب بھی انشاء اللہ حال ٹھیک ہوجائے گا۔ مجاہدین کے فضائل حضرت ابوہریرہ، حضرت سہل بن سعد اور حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام کو نکلناساری دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے۔ (صحیح بخاری ص 392 ج 1) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ضرورمیری خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔ (صیح بخاری ص 392 ج 1) حضرت عبدالرحمن بن جبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی بندے کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہوگئے اسے دوزخ کی آگ نہ چھوئے گی۔ (بخاری ص 394 ج 1) حضرت انس بن مالک ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل کیا کہ جو بھی کوئی شخص جنت میں داخل ہوگا وہ دنیا میں واپس آنے کی آرزو نہ کرے گا خواہ اس کو وہ سب کچھ مل جائے جو دنیا میں ہے سوائے شہید کے۔ وہ وہاں جو اپنا اعزاز دیکھے گا اس کی وجہ سے آرزو کرے گا کہ دنیا میں واپس چلا جاتا اور دس مرتبہ قتل کیا جاتا۔ (صحیح بخاری ص 395 ج 1) حضرت سلمان فارسی ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ کی راہ میں ایک دن ایک رات اسلامی ملک کی سرحد کی حفاظت میں گزارنا ایک ماہ کے روزے رکھنے اور راتوں رات ایک ماہ نمازوں میں قیام کرنے سے بہتر ہے۔ اگر یہ شخص اسی حالت میں وفات پا گیا تو (ثواب کے اعتبار سے) اس کا وہ عمل جاری رہے گا جو عمل وہ کیا کرتا تھا اور اس کا رزق جاری رہے گا (اور قبر میں) فتنہ ڈالنے والوں سے پر امن رہے گا۔ (صحیح مسلم ص 142 ج 2) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس نے جہاد نہیں کیا اور اس کے نفس میں جہاد کا خیال بھی نہ آیا تو وہ نفاق کے ایک شعبہ پر مرگیا۔ (صحیح مسلم ص 141 ج 2) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی ہوا اور اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس کی راہ میں کون زخمی ہوتا ہے تو وہ شخص قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا۔ رنگ تو خون کا ہوگا اور خوشبو مشک کی ہوگی۔ (صحیح بخاری ص 313 ج 2 صحیح مسلم ص 123 ج 2) جہاد میں مال خرچ کرنے کا ثواب : اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے۔ ایک شخص نے جہاد کے لیے ایک اونٹنی پیش کردی جس کو مہار لگی ہوئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تیرے لیے اس کے عوض قیامت کے دن سات سو اونٹنیاں ہوں گی ہر ایک کو مہار لگی ہوئی ہوگی (صحیح مسلم ص 137 ج 2) (یعنی مہار لگی ہوئی سات سو اونٹنیاں خرچ کرنے کا ثواب ملے گا) ۔ جہاد میں شرکت کے لیے جانے والے کو سامان دے دینا جس سے وہ جنگ کرے اور کھائے پیئے اس کا بھی بہت بڑا ثواب ہے۔ حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جس نے کسی فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے کو سامان دیا اس نے (بھی) جہاد کیا اور جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے گھر والوں کی خدمت میں خیر کے ساتھ رہا اس نے بھی جہاد کیا۔ (صحیح بخاری ص 399 ج 1) جہاد پر دشمنان اسلام کا اعتراض اور اس کا جواب : دشمنان اسلام نے جہاد کو بہت مکروہ طریقہ پر پیش کیا ہے اول تو اسلام کی دشمنی میں اسلام کی دعوت کو نہیں سمجھتے۔ اسلام کی دعوت یہ ہے کہ سارے انسان اللہ کو وحدہ لاشریک مانیں اس کے سب رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لائیں۔ خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا نبی اور رسول مانیں، قرآن پر ایمان لائیں اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی طرف سے جو شریعت پیش کی ہے اس کو مانیں، جو شخص یہ سب قبول کرے گا وہ مسلم ہوگا۔ اللہ کا فرمانبر دار ہوگا۔ مستحق جنت ہوگا۔ اور جو شخص اس دین و شریعت کو قبول نہ کرے گا۔ وہ کافر ہوگا۔ مستحق دوزخ ہوگا۔ ہمیشہ ہمیشہ آگ کے دائمی عذاب میں رہے گا۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے جب مسلمان کافروں سے جنگ کریں تو انہیں پہلے اسلام کی دعوت دیں اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو کوئی لڑائی نہیں جنگ نہیں۔ قتال نہیں، اگر اسلام کو قبول نہ کریں تو ان سے جزیہ دینے کو کہا جائے گا۔ پھر اگر جزیہ دینا بھی قبول نہ کریں تو جنگ کی جائے۔ جہاد کا مقصود اعلی کافروں کو دین حق کی طرف بلانا ہے تاکہ وہ جنت کے مستحق ہوجائیں اگر جنگ کرکے کسی قوم کو دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کرلیا تو اس میں ان کے ساتھ احسان ہی کیا، کسی قوم کے تھوڑے سے افراد جنگ میں کام آگئے اور اکثر افراد نے اسلام قبول کرلیا تو مجموعی حیثیت سے اس قوم کا فائدہ ہی ہوگا، اگر کوئی قوم اسلام قبول نہ کرے اور جزیہ دینے پر راضی ہوجائے اور اس طرح مسلمانوں کی عملداری میں رہنا قبول کرے تو اس میں بھی اس قوم کا فائدہ ہے کہ دنیاوی اعتبار سے ان کی جانیں محفوظ ہوگئیں اور آخرت کے اعتبار سے یہ فائدہ ہوا کہ انہیں دین اسلام کے بارے میں غور کرنے کا موقع مل گیا۔ مسلمانوں کی اذانیں سنیں گے، نمازیں دیکھیں گے۔ مسلمانوں کا جو اللہ سے تعلق ہے اور جو مخلوق کے ساتھ ان کے معاملات ہیں وہ سامنے آئیں گے۔ مسلمانوں کے زہد وتقویٰ سے متاثر ہوں گے۔ اس طرح سے اقرب ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں اور کفر سے بچ جائیں اور آخرت کے عذاب سے محفوظ ہوجائیں۔ رہا جزیہ تو وہ ان کی جانوں کی حفاظت کا بدلہ ہے اور وہ بھی سب پر نہیں ہے۔ اور زیادہ نہیں ہے۔ اس ساری تفصیل سے سمجھ لینا چاہیے کہ جہاد میں کافروں کی خیر خواہی پیش نظر ہے اگر کافروں کی کوئی جماعت اسلام بھی قبول نہ کرے اور جزیہ دینا بھی منظور نہ کرے تو ان کے ساتھ جنگ اور قتل و قتال کا معاملہ ہوگا، کافر اللہ کا باغی ہے۔ کفر بہت بڑی بغاوت ہے۔ مجازی حکومتوں میں سے کسی حکومت کا کوئی فردیا جماعت بغاوت کرے تو اس کو سخت سے سخت سزا دی جاتی ہے اللہ کے باغی جو اس کی زمین پر بستے ہیں اس کا دیاکھاتے ہیں اس کی عطا کی ہوئی نعمتیں کام میں لاتے ہیں مگر اللہ پر ایمان نہیں لاتے اگر اللہ کو مانتے ہیں تو اس کے ساتھ غیر اللہ کی بھی عبادت کرتے ہیں۔ بتوں کو پوجتے ہیں اور بہت سے خدا مانتے ہیں ایسے لوگ اس قابل کہاں ہیں کہ خدا کی زمین پر زندہ رہیں، اللہ کے وفادار بندے جنہوں نے اللہ کے دین کو قبول کرلیا اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں پھر ان باغیوں کے منکر ہونے کے بعد اللہ کے وفادار بندے ان کو قتل کردیں تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ؟ دنیا سے کفر و شرک مٹانے کے لیے اور خالق ومالک جل مجدہ، کے باغیوں کی سرکوبی کے لیے جو اسلام میں جہاد شروع کیا گیا ہے اس پر تو دشمنوں کو اعتراض ہے۔ لیکن صدیوں دشمنان اسلام خاص کر یورپ کے لوگ جو ایشیا کے ممالک پر قبضہ کرتے رہے ہیں اور اس سلسلہ میں جو لاکھوں کروڑوں خون ہوئے ہیں۔ 1857 ء میں جو انگریزوں نے ہندوستانیوں کا قتل عام کیا ہے اور 1941 ء اور 1942 ء میں جو عالمی جنگیں ہوئی تھیں اور ہیرو شیما پر جو بم پھینکا گیا اور ایک طویل زمانہ تک جو صلیبی جنگیں ہوئی ہیں جن میں لاکھوں انسان تہ تیغ ہوئے یہ سب کچھ کونسی خیر پھیلانے کے لیے ہوئے ؟ کیا اس میں ملک گیری کی ہوس اور کفر و شرک پھیلانے کے عزائم اور دین اسلام کو مٹانے کے ارادے نہیں تھے ؟ یہ ان لوگوں کی حرکتیں ہیں جو سیدنا حضرت عیسیٰ علی نبینا و (علیہ السلام) سے نسبت رکھنے کے جھوٹے دعوے دار ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم یہ تھی کہ کوئی شخص تمہارے رخسار پر ایک طمانچہ مارے تو دوسرا رخسار بھی اس کے سامنے کردو، اور مشرکین ہند کو دیکھو جن کے یہاں ہتھیا کرنا بہت بڑا پاپ ہے جو چوہا مارنے کو برا جانتے ہیں وہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور برابر فساد کرتے ہیں اور اسلامی جہاد پر اعتراض کرنے والے اپنے آئینہ میں اپنا منہ نہیں دیکھتے اور جو لوگ اللہ کے باغی ہیں ان کی بغاوت کو کچلنے والوں کے جہاد اور قتال پر اعتراض کرتے ہیں، سچ ہے۔ اپنے عیبوں کی کہاں آپ کو کچھ پروا ہے ؟ غلط الزام بھی اوروں پر لگا رکھا ہے ! یہ ہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے ؟ ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو : آیت بالا میں جہاد کی فرضیت بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا : (وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْءًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ) (کہ ممکن ہے تمہیں کوئی چیز ناگوار ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ممکن ہے کہ تمہیں کوئی چیز محبوب ہو اور وہ تمہارے لیے بری ہو) سیاق کلام کے اعتبار سے تو اس کا تعلق جہاد اور قتال سے ہے کہ طبعی طور پر جہاد ناگوار معلوم ہوتا ہے لیکن نتائج اور ثمرات کے اعتبار سے تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور جہاد چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ جانا اور کاروبار میں لگنا تمہاری محبوب چیز ہے لیکن حقیقت میں جہاد کا چھوڑ دینا تمہارے حق میں شر ہے، اور اس کے چھوڑ دینے سے بہت سی خیر سے محرومی ہے اور برے نتائج سامنے آنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن انداز بیان ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ جہاد کے علاوہ بھی بہت سے امور کو شامل ہے، عموماً انسان بعض چیزوں کو مکروہ جانتا ہے لیکن اس کے لیے وہ بہتر ہوتی ہیں اور بہت سی چیزوں کو پسند کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اس کے لیے مضر ہوتی ہیں اور یہ ایسی بات ہے جس کا رات دن تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا خیر اسی میں ہے کہ اللہ کے احکام مانیں اور ان ہی پر چلیں۔ آخر میں ارشاد فرمایا : (وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) کہ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے، کیونکہ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے۔ اسے اپنی مخلوق کا نفع و ضرر اور مصلحت سب کچھ معلوم ہے۔
Top