Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 218
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو ھَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يَرْجُوْنَ : امید رکھتے ہیں رَحْمَتَ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا یہ لوگ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
آخر میں یہ جو فرمایا : (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَ جَاھَدُوْا) (الایۃ) اس کے بارے میں مفسر ابن کثیر ص 254 ج 1 لکھتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن جحش ؓ اور ان کے ساتھیوں کا مسئلہ حل ہوگیا اور سرور عالم ﷺ نے ان کے لائے ہوئے مال کو جو کافروں سے لے لیا تھا 5/1 نکال کر باقی مال انہی پر تقسیم فرما دیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم اس بات کی امید کریں کہ جو کچھ ہم نے کیا یہ ہمارے لیے جہاد شرعی میں شمار ہوجائے گا اور اس میں ہمیں وہ اجر مل جائے گا جو مجاہد کو ملا کرتا ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ شانہ نے واضح طور پر بتادیا کہ بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں یہ لوگ رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ان لوگوں کا امید رکھنا بھی صحیح ہے اور ان لوگوں سے جو خطا اجتہادی کے طور پر ایک آدمی قتل ہوگیا تھا وہ بھی اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ فائدہ : (قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ) (آپ فرما دیجیے کہ اشہر حرام میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے) اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ اشہر حرام میں قتال کرنا ممنوع ہے سورة برأۃ کی آیت (اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ) سے بھی خوب واضح طور پر چار مہینوں میں قتال کرنے کی حرمت معلوم ہو رہی ہے۔ ان چار مہینوں میں قتال کی حرمت اب بھی باقی ہے یا نہیں اس بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت عطاء بن أبی رباح فرماتے تھے کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔ لہٰذا أشہر حرم میں قتال کرنا جائز نہیں۔ الایہ کہ دشمن قتال کرنے لگے تو اس کے جواب میں قتال کرنا جائز ہوگا، حضرت سلیمان بن یسار اور سعید بن المسیب ؓ فرماتے تھے کہ اشہر حرم میں قتال کی ممانعت منسوخ ہوگئی اور اب اشہر حرم میں قتل کرنا جائز ہے، علامہ ابوبکر جصاص (رح) لکھتے ہیں : وَ ھو قول فقھاء الأمصار ( کہ یہی فقہاء امصار کا قول ہے) ۔ پھر لکھتے ہیں کہ پہلا حکم حرمت قتال والا منسوخ ہے۔ آیت کریمہ (فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ ) اور دوسری آیت (قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَ لَا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) أشہر حرام میں قتال کی ممانعت کے بعد نازل ہوئی۔ (احکام القرآن ص 222 ج 1) علامہ قرطبی ص 43 ج 3 میں لکھتے ہیں کہ جمہور کا مذہب ہے کہ اشہر حرم میں قتل کرنے کی ممانعت منسوخ ہوچکی ہے اور اب ان میں قتال کرنا مباح ہے، اس کا ناسخ کون ہے اس میں اختلاف ہے حضرت زہری نے فرمایا کہ آیت کریمہ (وَ قاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً ) (سورۂ توبہ) نے اسے منسوخ کردیا اور بعض حضرات کا فرمانا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اشہر حرام میں بنی ثقیف سے جہاد فرمایا تھا اور حضرت أبو عامر اشعری ؓ کو اشہر حرام میں وادی اوطاس میں جہاد کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ ا ھ بہر حال جمہور کا مذہب ہے کہ أشہر حرم میں قتال کرنے کی ممانعت منسوخ ہے۔ ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اگر دشمن جنگ کی ابتدا کردیں تو اس صورت میں وہ حضرات بھی جنگ کرنے کی اجازت دیتے ہیں جو اس حکم کو منسوخ نہیں مانتے ہیں۔
Top