Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 224
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا : اور نہ بناؤ اللّٰهَ : اللہ عُرْضَةً : نشانہ لِّاَيْمَانِكُمْ : اپنی قسموں کے لیے اَنْ : کہ تَبَرُّوْا : تم حسن سلوک کرو وَ : اور تَتَّقُوْا : پرہیزگاری کرو وَتُصْلِحُوْا : اور صلح کراؤ بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اپنی قسموں کے ذریعہ نیکی کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے اور لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے کے لیے اللہ کو آڑ نہ بناؤ اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اپنی قسموں کو نیکی اور تقویٰ سے بچنے کا ذریعہ نہ بناؤ اسباب النزول ص 72 میں ہے کہ یہ آیت شریفہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی، ان کے بہنوئی اور بہن کے درمیان کچھ ناراضگی ہوگئی تھی انہوں نے قسم کھائی کہ اس کے پاس کبھی بھی نہیں جائیں گے اور نہ اس سے بات کریں گے اور نہ میاں بیوی کے درمیان صلح کرائیں گے وہ کہتے تھے کہ میں نے تو قسم کھا رکھی ہے۔ اب میں اس کی خلاف روزی کیسے کروں۔ اس پر اللہ جل شانہ نے آیت بالانازل فرمائی۔ تفسیر درمنثور ص 268 ج 1 میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ بعض مرتبہ کوئی شخص قسم کھا لیتا تھا کہ فلاں نیکی اور تقویٰ کا کام نہیں کرونگا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا۔ اگر کوئی شخص قسم کھائے تو خیر کی قسم کھائے یعنی نیک کام کے ارادہ کو موکد کرنے کے لیے قسم کھائی جاسکتی ہے۔ لیکن نیکی نہ کرنے پر قسم کھانا اور گناہ کرنے پر قسم کھانا شرعاً ممنوع ہے بعض لوگ جو قسم کھالیتے تھے کہ میں فلاں عزیز کے گھر نہیں جاؤں گا یا فلاں مسلمان بھائی کی دعوت قبول نہیں کروں گا یا جماعت سے نماز نہیں پڑھوں گا یا فلاں گناہ کروں گا ایسے لوگوں کو آیت بالا میں ہدایت دی گئی ہے اور فرمایا کہ اللہ کے نام کو نیکیوں سے بچنے اور تقویٰ چھوڑنے کا ذریعہ مت بناؤ، قسم کھا بیٹھے اب کہتے ہیں کہ قسم کے خلاف کیسے کریں ؟ حالانکہ قسم اس لیے نہیں ہے کہ اس کو خیر سے بچنے کا ذریعہ بنایا جائے، اگر کوئی شخص گناہ کی قسم کھالے تو قطع رحمی کی یا کسی بھی قسم کے گناہ کی قسم کھالے تو اس پر لازم ہے کہ قسم توڑ دے اور اس کے خلاف کرلے، اور قسم کا کفارہ دیدے۔ حضرت عوف بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنے چچا کے پاس جاتا ہوں اس سے کچھ سوال کرتا ہوں ہو وہ مجھے نہیں دیتا اور صلہ رحمی نہیں کرتا، پھر اسے حاجت در پیش ہوجاتی ہے تو مجھ سے آکر سوال کرنے لگتا ہے حالا ن کہ میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ اسے کچھ نہ دوں گا اور صلہ رحمی نہیں کرونگا، اس کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں وہ کام کروں جو خیر ہو اور قسم کا کفارہ دیدوں۔ (مشکوۃ المصابیح ص 297) سورة نور میں ارشاد فرمایا : (وَلاَ یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) ” اور جو لوگ تم میں بزرگی اور وسعت والے ہیں وہ اہل قرابت کو اور مساکین کو اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں اور چاہئے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ بات نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا قصور معاف کردے۔ بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ “ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنے ایک بھانجہ پر خرچ کیا کرتے تھے اس سے ایک ایسی حرکت سرزد ہوگئی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکر ؓ کو بہت ناراضگی ہوئی اور انہوں نے قسم کھالی کہ میں اب اس پر خرچ نہیں کیا کرونگا۔ اس پر سورة نور کی مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : جب تو کوئی قسم کھالے پھر تو دیکھے کہ جس چیز پر قسم کھائی ہے دوسری چیز اس سے بہتر ہے (جو اس کے مقابل ہے) تو اس بہتر صورت کو اختیار کرلے (اور اس کے اختیار کرنے سے جو قسم ٹوٹ گئی) اس کا کفارہ دیدے۔ (رواہ البخاری و مسلم کمافی المشکوۃ ص 296) ۔
Top