Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 228
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١ؕ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَالْمُطَلَّقٰتُ : اور طلاق یافتہ عورتیں يَتَرَبَّصْنَ : انتظار کریں بِاَنْفُسِهِنَّ : اپنے تئیں ثَلٰثَةَ : تین قُرُوْٓءٍ : مدت حیض وَلَا يَحِلُّ : اور جائز نہیں لَهُنَّ : ان کے لیے اَنْ يَّكْتُمْنَ : وہ چھپائیں مَا : جو خَلَقَ : پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَرْحَامِهِنَّ : ان کے رحم (جمع) اِنْ : اگر كُنَّ يُؤْمِنَّ : ایمان رکھتی ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور الْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ : اور خاوند ان کے اَحَقُّ : زیادہ حقدار بِرَدِّھِنَّ : واپسی ان کی فِيْ ذٰلِكَ : اس میں اِنْ : اگر اَرَادُوْٓا : وہ چاہیں اِصْلَاحًا : بہتری (سلوک) وَلَهُنَّ : اور عورتوں کے لیے مِثْلُ : جیسے الَّذِيْ : جو عَلَيْهِنَّ : عورتوں پر (فرض) بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَلِلرِّجَالِ : اور مردوں کے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر دَرَجَةٌ : ایک درجہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنی جانوں کو روکے رکھیں تین حیض آنے تک، اور ان کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ جو کچھ اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا فرمایا ہے اسے چھپائیں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں اللہ پر اور یوم آخرت پر، اور ان کے شوہر ان کے لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں اس مدت کے اندر اگر اصلاح کا ارادہ کریں، اور عورتوں کے لیے اس جیسا حق ہے جو ان کے اوپر ہے اچھے طریقہ پر، اور مردوں کا ان کے مقابلہ میں درجہ بڑھا ہوا ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
مطلقہ عورتوں کی عدت کا بیان مرد عورت آپس میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں، اس حاجت کے انتظام کے لیے اللہ تعالیٰ نے نکاح کا قانون مشروع فرمایا ہے۔ اور نکاح اس لیے ہے کہ دونوں اطمینان اور سکون کے ساتھ اچھی زندگی گزاریں اور مل جل کر حسن سلوک کے ساتھ رہیں اور زندگی بھر نباہنے کی کوشش کریں، آپس میں کوئی ناگوار بات ہوجائے تو اس سے درگزر کرتے رہیں، لیکن کبھی ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ ساتھ رہنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ایک طرف سے یا دونوں طرف سے طبیعت کا جوڑ نہیں کھاتا اور باہمی میل جول کی خوبصورتی کے ساتھ کوئی صورت نہیں بنتی تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے طلاق اور خلع کا قانون مشروع فرما دیا، بہت سی قوموں میں نکاح تو ہے لیکن طلاق نہیں ہے۔ یہ لوگ پہلے اسلام پر اعتراض کیا کرتے تھے لیکن جب حالات نے مجبور کیا تو خود طلاق کا قانون بنا کر اپنے دین میں داخل کر رہے ہیں۔ چونکہ ان کا دین اپناہی بنایا ہوا ہے اس لیے اس میں کمی بیشی بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہر چند کہ اسلام میں میاں بیوی کا آپس میں نباہ بہت زیادہ محبوب و مرغوب ہے لیکن اس قدر مجبور بھی نہیں کہ باہمی ساتھ رہنے میں اچھے طریقہ پر زندگی نہ گزار سکیں تو خواہ مخواہ بددلی کے ساتھ نباہتے رہیں اور ایک دوسرے کے لیے سوہان روح بنے رہیں۔ اسلام میں جو طلاق کا قانون ہے اس کے کچھ احکام بھی ہیں۔ ان احکام میں ایک یہ بھی ہے کہ عورت طلاق کے بعد کچھ ایسی مدت گزارے گی۔ جس میں کسی دوسرے مرد سے نکاح نہیں کرسکے گی۔ اس مدت کے گزرنے کو عدت کہتے ہیں۔ عدت لغت میں شمار کرنے کے معنی میں آتا ہے، چونکہ عورت کو یہ مدت گزارنے کے لیے مہینے یا حیض شمار کرنے پڑتے ہیں اس لیے اس کو عدت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، عدت کے بعد احکام یہاں آیت بالا میں مذکور ہیں اور بعض احکام سورة طلاق کے پہلے رکوع میں ذکر فرمائے ہیں۔ جس عورت کو اس کا شوہر طلاق دیدے تو دیکھا جائے گا کہ اس کو حمل ہے یا نہیں، اگر اس کو حمل ہے تو اس کی عدت و ضع حمل یعنی ولادت ہوجانے پر ختم ہوجائے گی، سورة الطلاق میں فرمایا ہے : (وَاُوْلاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ) ” اور حمل والی عورتوں کی اجل یعنی ختم عدت یہ ہے کہ وضع حمل ہوجائے۔ “ اور مطلقہ اگر حمل والی عورت نہیں ہے نا بالغ ہے یا بالغ تو ہے لیکن اسے اب تک حیض آیا ہی نہیں یا وہ کبھی حیض والی تھی بوڑھی ہوچکی ہے اور حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہے تو ان تینوں قسم کی عورتوں کی عدت طلاق یہ ہے کہ تین ماہ گزار دیں، ان کو سورة طلاق میں یوں ارشاد فرمایا ہے : (وَاللَّاءِیْ یَءِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَاءِکُمْ اِِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلاَثَۃُ اَشْہُرٍ وَّاللَّاءِیْ لَمْ یَحِضْنَ ) ” اور جو عورتیں حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہیں تمہاری عورتوں میں سے اگر تم شک میں پڑو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور جن کو حیض نہیں آیا ان کی عدت بھی یہی ہے۔ “ اب ان عورتوں کا حکم جاننا چاہئے جو حمل والی نہیں ہیں اور ان کو حیض آتا ہے ایسی عورتوں کو طلاق ہوجائے تو ان کی عدت یہ ہے کہ طلاق کے بعد تین حیض گزاریں۔ جب شرعی اصول کے مطابق تین حیض گزر جائیں گے تو عدت پوری ہوجائے گی۔ خواہ کتنے ہی مہینے میں تین حیض آئیں، آیت بالا میں انہیں عورتوں کی عدت بیان فرمائی ہے جن کو حیض آتا ہے، زمانہ حیض میں طلاق دینا ممنوع ہے جب کسی شخص نے طہر میں یعنی ایسے زمانہ میں طلاق دی جو پاکی کا زمانہ ہے حیض کا زمانہ نہیں تو یہ عورت ایک حیض گزارے پھر ایک طہر گزارے پھر ایک حیض گزارے پھر ایک طہر گزارے پھر ایک حیض گزارے۔ جب تیسرا حیض ختم ہوجائے تو عدت ختم ہوجائے گی۔ ابھی بیان کیا گیا کہ جس عورت کو حمل ہو اس کی عدت وضع حمل تک ہے۔ حمل اور حیض یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق خود عورت کی ذات سے ہے وہ جانتی ہے کہ مجھے حیض ہے یا دونوں میں سے کچھ بھی نہیں، اب یہاں عورت کی دیانت پر مسئلہ موقوف ہوجاتا ہے۔ عورت سمجھتی ہے کہ وضع حمل میں تو کئی مہینے لگیں گے لہٰذا میں یوں بیان کر دوں کہ مجھے حمل نہیں ہے اور حیض والی بھی نہیں ہوں۔ اس طرح عدت مہینوں پر آجائے گی اور تین ماہ گزر جانے پر میرے بارے میں عدت کا فیصلہ کردیا جائے گا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض مہینوں میں طہر کا زمانہ لمبا ہوگیا کئی ماہ سے حیض نہیں آ رہا لیکن عدت کا فیصلہ جلد ہوجانے کی وجہ سے دو تین ماہ میں کہہ دیتی ہے کہ مجھے تین حیض آ چکے ہیں حالانکہ ابھی تین حیض نہیں آئے اس طرح کی غلط بیانی کرنا حرام ہے، اس بات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا : (وَ لَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِھِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ باللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرْ ) (اور ان کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ جو کچھ اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا فرمایا ہے اسے چھپائیں اگر اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں) جو کوئی شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے دن کی پیشی کا اعتقاد رکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا تو اللہ تو جانتا ہے ایسا شخص امانت و دیانت کی صفت سے متصف ہوجاتا ہے پھر وہ جھوٹ نہیں بول سکتا اور غلط بیانی نہیں کرسکتا۔ پھر فرمایا : ( وَ بُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا) (اور ان کے شوہر ان کے لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں۔ اس مدت کے اندر اگر وہ اصلاح کا ارادہ کریں) اس میں طلاق رجعی سے متعلق ایک مسئلہ بیان فرمایا ہے جب کوئی شخص اپنی بیوی کو صاف صریح لفظوں میں ایک یا دو طلاق دیدے تو یہ طلاق رجعی ہوتی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر اندر نکاح ثانی کے بغیر شوہر رجوع کرسکتا ہے اگر عدت گزر جائے تو یہ طلاق رجعی بائن ہوجاتی ہے جس کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتا۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جب نکاح کے بعد جماع بھی ہوا ہو، اگر نکاح ہوا ہو اور اس کے بعد جماع نہ ہوا اور طلاق دیدے تو یہ طلاق رجعی نہیں بلکہ طلاق بائن ہوگی۔ طلاق رجعی جس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق ہے اس طلاق کے بعد عدت کے اندر شوہر رجوع کرنا چاہے تو عورت کے رشتہ دار یا کوئی بھی شخص بلکہ خود عورت بھی اس کو برا نہ مانے اور کوئی شخص ایسی صورت حال پیدا نہ کر دے جس سے کہ وہ رجوع کے ارادے کو موقوف کر دے، بلکہ جوڑ لگانے کی اور تعلق استوار ہوجانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ شوہر اگر رجوع کرلے تو عورت اور عورت کے رشتہ داروں کی مرضی کے بغیر رجوع تو ہو ہی جائے گا۔ لیکن سب کی خوشی اور رضا مندی سے ہو اور آپس کے تعاون کے ساتھ ہو تو زیادہ مستحسن اور مبارک ہوگا۔ جس طرح عورت اور اس کے رشتہ داروں کو چاہئے کہ رجوع کی فضا بن جائے تو اس میں آڑے نہ آئیں اور ایسی باتیں نہ کریں جن سے شوہر کا دل کھٹا ہوجائے۔ اسی طرح سے شوہر کو بھی لازم ہے کہ اصلاح کی نیت سے رجوع کرے۔ اس کو (اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا) میں بیان فرما دیا ہے۔ شوہر اگر یہ سمجھتا ہے کہ آئندہ میں خوش اسلوبی اور حسن معاشرت اور حسن اخلاق کے ساتھ نباہ کرسکوں گا تو رجوع کرلے، ضرر دینے کا ارادہ نہ کرے۔ بہت سے لوگ جہالت کی وجہ سے اور نفس کی بھڑ اس نکالنے کے لیے رجوع کرلیتے ہیں اور پھر حسن سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ صاف کہہ دیتے ہیں تو یوں ہی پڑی رہے گی۔ نہ تیرا حق ادا کروں گا۔ نہ نکاح سے خارج کرونگا اور بہت سے لوگ رجوع کرکے پھر طلاق دیتے ہیں جس سے عدت لمبی ہوتی جاتی ہے، یہ بھی ضرر پہنچانے کا ایک پہلو ہے۔ یہ سب طریقے غیر اسلامی ہیں۔ اصلاح مقصود ہو تو رجوع کرے ورنہ عدت گزرنے دے، عدت گزرتے ہی رجعی طلاق بائن ہوجائے گی، پھر وہ جہاں چاہے اپنی مرضی سے مناسب جگہ نکاح کرلے گی، جب نباہ کرنا نہیں ہے تو رجوع کر کے تکلیف دینا سمجھداری اور دینداری کی بات نہیں ہے۔ بلکہ ظلم ہے۔ اسلام میں عورت کی حیثیت : پھر فرمایا (وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بالْمَعْرُوْفِ ) (اور عورتوں کے لیے اس جیسا حق ہے جو ان کے اوپر ہے اچھے طریقہ پر) اس میں یہ بتایا ہے کہ صرف یہی بات نہیں ہے کہ مردوں ہی کے حقوق عورتوں پر ہیں بلکہ جس طرح مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں اسی طرح مردوں پر بھی عورتوں کے حقوق ہیں۔ عورت کو خدمت گزار سمجھنا اور اس کے حقوق اور حاجات کا دھیان نہ رکھنا، شریعت اسلامیہ سراسر خلاف ہے۔ زمانہ اسلام سے پہلے دنیا کی اقوام میں عورت کی بہت بری گت بنائی جاتی تھی۔ اب باو جود یکہ زمانہ کافی آگے بڑھ چکا ہے۔ پھر بھی اسلام کے علاوہ کسی دین یا قانون میں عورت کو وہ مقام حاصل نہیں جو شریعت اسلامیہ نے اس کو دیا ہے۔ ہندوستان کے مشرکین میں تو یہ دستور تھا کہ مرد مرجاتا تھا تو عورت کو اس کے ساتھ زندہ جلنا پڑتا تھا اور عورتوں کا میراث میں کسی بھی مذہب اور قانون میں حصہ نہیں ہے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ عورت کی حیثیت ایک استعمالی چیز سے زیادہ نہ تھی، عورت مردوں کی ملکیت تصور کی جاتی تھی، عورت کسی چیز کی مالک نہ تھی، جب اس کا شوہر مرجاتا تھا تو شوہر کے خاندان والے ہی اس پر قابض ہوجاتے تھے اور اس کی اجازت کے بغیر جہاں چاہتے جبراً نکاح کردیتے تھے بلکہ شوہر کی اولاد ہی اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیتی تھی۔ عرب کے جاہل لڑکیوں کو زندہ درگور بھی کردیتے تھے اور پیدا ہوتے ہی قتل کردیتے تھے اسلام نے عورت کو اس کا صحیح مقام عطا فرمایا جو اس کی شان کے لائق ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اس کو عورت سے نکال کر مردوں کی صف میں کھڑا کر دیاہو اور ایسا بھی نہیں کہ وہ محض ایک استعمال کی چیز بن کر رہ جائے نہ اس کا کوئی حق تسلیم کیا جائے اور نہ اس کی کوئی حیثیت مانی جائے۔ اسلام میں عورت گھر کی ملکہ ہے اپنی اولاد کی محترم والدہ ہے اپنے شوہر کی چہیتی بیوی ہے باپ ماں شوہر اور اولاد کے مال کی حسب قوانین وارث ہے اور اپنے مال میں تصرف کرنے کا اسے پورا اختیار ہے جس میں شوہر کی ممانعت کا کوئی حق نہیں ہے۔ بشرطیکہ خلاف شرع کا موں میں خرچ نہ کرے۔ عورت کا ایک طرف میراث میں حصہ ہے دوسری طرف شوہروں پر مہر لازم ہوتا ہے، اور یہ مہر عورتوں کی مرضی سے مقرر ہوتا ہے۔ کمی بیشی کرنا ان کا اپنا حق ہے، وہ چاہیں اپنی مرضی سے معاف کریں اور چاہیں تو پورا وصول کریں۔ اسلام نے صلہ رحمی کی بھی تعلیم دی ہے ایک عورت کسی کی والدہ ہے کسی کی بہن ہے۔ کسی کی خالہ ہے۔ کسی کی پھوپھی ہے۔ صلہ رحمی کے اصول پر سب کو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ شوہر بھی حسن معاشرت سے پیش آئے، نان نفقہ کا خیال کرے اور اس کی حاجات پوری کرے اولاد بھی اکرام و احترام سے پیش آئے۔ اس طرح عورت کی برتری ظاہر ہوگی اور معاشرہ میں اس کا مرتبہ اونچا ہوگا۔ اور عزت و اکرام کے ساتھ اس کی زندگی گزرے گی۔ یورپین اقوام میں عورت کی بےآبروئی : یورپین اقوام نے عورت کو بالکل ہی بےآبرو کرکے چھوڑ دیا ہے، ان کے یہاں عورت مرد کی نفسانی خواہش پوری کرنے کا محض ایک آلہ ہے۔ ان کے معاشرہ میں اس سے زیادہ عورت کی کوئی حیثیت نہیں۔ میراث میں اسے کوئی حصہ نہیں ملتا۔ مہر کا بھی کوئی معاملہ نہیں، بلکہ سرے سے نکاح ہی کو ان کے یہاں عیب سمجھا جاتا ہے۔ دوستانہ طریقہ پر برسوں زندگی گزارتے ہیں اور نفسانی خواہشات پوری کرتے ہیں۔ بعد میں کبھی رسمی نکاح بھی کرلیتے ہیں۔ اس لیے ان میں اولاد بھی ثابت النسب نہیں ہے۔ اولاد کی ولدیت میں ماں کے نام لکھے جاتے ہیں اور عورتوں کے اخراجات کی ذمہ داری عموماً چونکہ کسی پر نہیں ہے اس لیے انہیں اپنی آبرو کھو کر ملازمتیں کرنی پڑتی ہیں راہ گیر کے جوتوں پر پالش کرتی ہیں۔ دکانوں میں مال فروخت کرنے پر ملازمت کرتی ہیں۔ ننگا لباس پہن کر شوروموں کے پاس کھڑی رہتی ہیں تاکہ گاہک متوجہ ہو اور آنے والوں کا نفس ان کی طرف مائل ہو جس سے زیادہ خریداری ہو سکے۔ اس آزادی نسواں کو دیکھ کر بہت سے نام نہاد مسلمان بھی اپنی عورتوں کو یورپین اقوام کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ عورتیں بازاروں میں کاروبار کریں۔ بےپردہ ہو کر رہیں۔ عورتیں ناقص العقل تو ہیں ہی وہ سمجھتی ہیں کہ ہمیں حق دلائے جا رہے ہیں، اور بےپردہ گھومنے اور ننگا لباس پہننے اور دوست تلاش کرنے کی آزادی کو اپنے لیے ہنر اور فخر کی بات سمجھتی ہیں۔ افسوس کہ دور حاضر میں عورت کو یہ گوارا نہیں کہ گھر کی ملکہ بن کر گھر میں بیٹھے، گھر کے سب لوگ اس کا احترام و اکرام کریں اپنے شوہر سے بھی مال ملے۔ میراث میں بھی حصہ ملے اور نفس و نظر کا تعلق صرف شوہر سے رہے اور اپنے مال میں جیسے چاہے تصرف کرے، وہ شیطانوں اور ملعونوں اور ملحدوں اور زندیقوں سے متاثر ہو کر گھر سے باہر نکلنے اور خود کما کر اپنا خرچ اٹھانے پر اپنے حقوق کی ادائیگی سمجھتی ہیں۔ یورپ کے رواجی طریقوں میں جب عورت کا کسی پر کوئی حق ہی نہیں ہے تو کوئی شخص ان کا کیا حق ادا کرے گا ؟ درحقیقت عورت کی یہ کوئی زندگی نہیں ہے جو مذہب اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب اور قوانین میں ہے۔ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں زنا کی کثرت ہے جو بچے پیدا ہوتے ہیں حکومت ان کی پرورش کرتی ہے ...... نہ کوئی ماں ہے نہ باپ نہ چچا ہے، نہ ماموں، نہ خالہ، نہ پھوپھی، نہ صلہ رحمی ہے، نہ نکاح ہے نہ مہر ہے۔ اس سے زیادہ انسانیت کی مٹی اور کیا پلید ہوگی، ان لوگوں کی ناسمجھی کی کہاں تک داد دی جائے جو انسانیت و نسوانیت کا خون کر رہے ہیں اور دعویٰ ان کا یہ ہے کہ وہ حقوق انسانی کے محافظ ہیں، اور عورتوں کو ان کے حقوق دلا رہے ہیں۔ مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے : پھر فرمایا (وَ للرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ) (اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے) اس میں یہ بتایا کہ اگرچہ میاں بیوی کے آپس میں ایک دوسرے پر حق ہیں (اور ہر ایک دوسرے کا حق ادا کرے) لیکن مردوں کو عورتوں پر ایک طرح کی برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ سورة النساء میں فرمایا ہے (اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآاَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ) ” مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ذمہ عورتوں کا خرچہ مقرر فرمایا ہے اور مردوں کو ان پر فضیلت دی ہے وہ ان پر حکمران ہیں امور خانہ داری میں اور دینی پابندی کرانے میں اور عورت کو اس کے ماں باپ کے یہاں آنے جانے میں اور بہت سے امور میں مرد کے حکموں کی فرما نبرداری کرنا لازم ہے اس کے بغیر گھر کا نظام ٹھیک نہیں بیٹھتا، اگر مرد کی برتری عورتوں پر بالکل ہی نہ رہے، تو شریعت اسلامیہ کے مطابق زندگی کا نظام نہیں چل سکتا، البتہ مردوں کے لیے بھی اس کی اجازت نہیں ہے کہ سردار بن گئے تو ظلم کیا کریں اور اس کے حقوق ادا نہ کریں اور اس کا مال برباد کردیں۔ عورت یہ سمجھ کر چلے کہ یہ میرا سردار ہے اور مرد یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے میری ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ نعمت مجھے عطا فرمائی ہے مجھے خیر و خوبی کے ساتھ نبا ہنا چاہئے۔ ایسا کریں گے تو ماں باپ اور اولاد سب کی زندگی انشاء اللہ تعالیٰ عمدہ طریقہ پر گزرے گی۔ سورة النساء میں فرمایا : (وَعَاشِرُوْھُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ) (کہ خوش اسلوبی کے ساتھ عورتوں کے ساتھ زندگی گزارو) اس میں ہر طرح کی خیر و خوبی ہمدردی اور حقوق کی ادائیگی اور مراعات کا حکم فرما دیا۔ مردوں کو چونکہ سرداری اور بڑائی دی گئی ہے اس لیے وہ اپنے مقام اور مرتبہ کا خیال کریں اور عورتوں کی لغزشوں اور کوتاہیوں پر صبر کریں اور برداشت کریں، اگر برداشت نہ کیا تو بڑائی ہی کیا رہی ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومن مرد کسی مومن عورت سے (یعنی ایمان والی بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک بات ناپسند ہوگی تو دوسری بات پسند آجائے گی۔ (مسلم ص 475 ج 1) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب میں بہتر ہوں۔ (رواہ ابن ماجہ ص 142) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔ اور جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے زیادہ مہربان ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 284 ج 2) آخر میں فرمایا : (وَ اللّٰہُ عَزٍیْزٌ حَکِیْمٌ) (اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے) اس میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی اگر کسی نے کی تو وہ یہ نہ سمجھے کہ میرا کوئی مواخذہ نہیں۔ اللہ نے احکام بھیجے ہیں اور عمل پیرا ہونے کا حکم فرمایا ہے۔ جو خلاف ورزی کرے گا اس کی گرفت ہونے لگے تو بچ نہیں سکتا۔ کیونکہ حکم دینے والا عزیز اور غالب ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس نے جو احکام دیئے ہیں وہ سب حکمتوں پر مبنی ہیں ان میں بندوں کی رعایتیں ملحوظ ہیں بندوں کے لیے اس نظام سے بہتر کوئی نظام نہیں جو ان کے خالق نے ان کے لیے حکمت کے مطابق تجویز فرمایا ہے۔
Top