Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 240
وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا١ۖۚ وَّصِیَّةً لِّاَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ١ۚ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُتَوَفَّوْنَ : وفات پاجائیں مِنْكُمْ : تم میں سے وَيَذَرُوْنَ : اور چھوڑ جائیں اَزْوَاجًا : بیویاں وَّصِيَّةً : وصیت لِّاَزْوَاجِهِمْ : اپنی بیویوں کے لیے مَّتَاعًا : نان نفقہ اِلَى : تک الْحَوْلِ : ایک سال غَيْرَ : بغیر اِخْرَاجٍ : نکالے فَاِنْ : پھر اگر خَرَجْنَ : وہ نکل جائیں فَلَا : تو نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْ : میں مَا فَعَلْنَ : جو وہ کریں فِيْٓ : میں اَنْفُسِهِنَّ : اپنے تئیں مِنْ : سے مَّعْرُوْفٍ : دستور وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور جو لوگ وفات پاجائیں اور چھوڑ جائیں بیویوں کو وصیت کردیں اپنی بیویوں کے لیے منتفع ہونے کی ایک سال تک اس طور پر کہ وہ گھر سے نہ نکالی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اس بات میں جو وہ اپنی جانوں کے لیے قاعدہ کے مطابق کرلیں، اور اللہ عزت والا ہے، حکمت والا ہے۔
بیویوں کے لیے وصیت کرنا زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو اس کی عدت ایک سال تھی، وہ ایک سال تک کسی کوٹھڑی میں پڑی رہتی تھی اور ایک سال کے بعد اس کوٹھڑی سے نکالتے تھے اور اس کی گود میں اونٹ کی مینگنیاں بھر دیتے تھے پھر اسے باہر گلی کوچے میں نکالتے تھے۔ وہ لوگوں پر مینگنیاں پھنکتی جاتی تھی اس سے لوگ سمجھ لیتے تھے کہ اس کی عدت ختم ہوگئی جیسا کہ صحیح بخاری 803 ج 2 اور صحیح مسلم ص 487 ج 1 اور سنن ابو داؤد ص 314 ج 1 میں مذکور ہے۔ اسلام میں ایسی عورت کی عدت چار ماہ دس دن مقرر فرما دی جس کا شوہر وفات پا جائے اور وہ حمل سے نہ ہو اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ اس آیت میں حکم فرمایا کہ مرنے والا اپنی بیویوں کا خیال رکھے موت سے پہلے اس بات کی وصیت کر دے کہ شوہر کے ترکہ سے ایک سال تک اس کو نان و نفقہ دیا جائے، لفظ (مَتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ ) میں اس کو بیان فرمایا ہے۔ یہ حکم پہلے تھا بعد میں منسوخ ہوگیا اور اس کے ساتھ یہ حکم تھا کہ وصیت میں یہ بھی شامل کردیں کہ ایک سال تک اسے شوہر کے گھر سے نہ نکالا جائے، (غَیْرَ اِخْرَاجٍ ) میں اس حکم کو بیان فرمایا ہے۔ لیکن عورت کو اختیار تھا کہ اگر وہ چاہے تو مرنے والے شوہر کے گھر میں رہے اور چاہے تو اپنے ماں باپ کے یہاں چلی جائے (فَاِنْ خَرَجْنَ الخ) میں اس مضمون کو بیان فرمایا ہے۔ یہ حکم آیت میراث نازل ہونے سے پہلے تھا۔ جب میراث کا حکم نازل ہوگیا اور اس کے بعد یہ حکم ہوگیا کہ میراث لے لے اور خرچہ اسی میں سے کرے۔ البتہ عدت پوری ہونے تک شوہر ہی کے گھر میں رہے نہ اس میں سے نکلے نہ نکالی جائے۔
Top