Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
کیا تم لوگ یہ امید رکھتے ہو کہ یہودی تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے اور حال یہ ہے ان میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جو اللہ کا کلام سنتے رہے ہیں۔ پھر اس میں تحریف کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد کہ وہ اس کو سمجھتے تھے اور جانتے تھے۔
یہودیوں میں عناد ہے ان سے ایمان قبول کرنے کی امید نہ رکھی جائے اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کی یہ امید اور آرزو ختم فرمادی کہ یہودی ایمان لائیں گے اور فرمایا کہ ان کے اسلاف کا یہ حال تھا کہ اللہ کا کلام سنتے تھے۔ پر جانتے بوجھتے اور سمجھتے ہوئے اس میں تحریف کردیتے تھے اور یہ لوگ ان پر اب تک کوئی نکیر نہیں کرتے اور طریقہ کار کو غلط نہیں بتاتے بلکہ ان سے محبت اور تعلق میں بہت آگے ہیں۔ اور جس طرح ان لوگوں نے اپنے اپنے زمانہ میں آیات بینات کا کھلا مشاہدہ کیا پھر بھی اپنے نبیوں کی تکذیب کی اور اللہ کے کلام کی تکذیب کی اسی طرح یہ لوگ بھی معجزات اور دلائل اور شواہد دیکھتے ہیں لیکن ٹس سے مس نہیں ہوتے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لاتے۔ اس آیت شریفہ میں جو اللہ تعالیٰ کا کلام سن کر اس میں تحریف کرنے کا ذکر ہے اس کے بارے میں حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس میں اس واقعہ کا ذکر ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ستر آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ وہاں انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام سن لیا تھا۔ لیکن جب قوم کے پاس واپس آئے تو انہوں نے اس کے خلاف بیان دیاجو وہاں سن کر آئے تھے۔ دوسرے حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے توریت شریف کی تحریف کرنا مراد ہے۔ علماء یہود رشوت لیکر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردیتے تھے اگر کوئی شخص رشوت لے آیاتو اس کے مطابق مسئلہ بتادیا۔ اور جو شخص کچھ بھی نہ لایا اس کو صحیح اور حق بات بتادی۔ یہ لوگ جو ایسی حرکت کرتے تھے جانتے بوجھتے ہوئے کرتے تھے اور یہ جانتے تھے کہ ہم گناہ کر رہے ہیں۔ پھر بھی اس کو کرتے چلے جاتے تھے۔ اسی تحریف میں یہ بات بھی تھی کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی صفات اور علامات جو توریت شریف میں بیان کی گئی تھیں، ان کو بدل دیا۔ اس میں وہ لوگ بھی مبتلا تھے جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں تھے جو لوگ خود مبتلائے تحریف ہوں اور دوسروں کو ایمان لانے سے روک رہے ہوں وہ خود کیا ایمان لائیں گے ؟
Top