Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ تم آپس میں خونریزی نہ کرو گے اور ایک دوسرے کو اپنے گھروں سے نہ نکالو گے پھر تم نے اس کا اقرار کیا اور تم اس کی گواہی بھی دیتے ہو
یہودیوں کی ایک خاص خلاف ورزی کا تذکرہ ان دونوں آیتوں میں یہودیوں کے ایک اور عہد اور قول وقرار کا اور پھر ان کی عہد شکنی کا تذکرہ فرمایا۔ زمانہ نزول قرآن کے وقت جو یہودی تھے ان کو اس قول وقرار کا بھی پتہ تھا جو یہودیوں سے لیا گیا تھا اور ان سے جو عہد شکنی اور خلاف ورزی سرزد ہوتی رہی تھی وہ بھی ان کے علم میں تھی ان سے اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا اور ان کو عہد شکنی یاد لائی اور ان کی دنیا و آخرت کی سزا بھی بتائی اور ساتھ ہی ساتھ اس میں حضرت خاتم النبیین ﷺ کی نبوت اور رسالت پر بھی دلیل قائم ہوگئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے اس قول وقرار اور عہد اور اس کی خلاف ورزی کا علم آپ کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوا ہے سب کچھ جاننے کے باوجود آنحضرت ﷺ کی نبوت پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ پہلے گزر چکا ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو بڑے قبیلے بنی نضیر اور بنی قریظہ آباد تھے اور دو قومیں یمن سے آکر آباد ہوگئی تھیں ان میں سے ایک قبیلہ کا نام اوس تھا اور دوسرے کا نام خزرج تھا، یہ دونوں قبیلے بت پرست تھے اور یہودیوں کے دونوں قبیلے اپنے کو دین سماوی پر سمجھتے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کی پابندی کا دم بھرتے تھے۔ اس زمانے میں عرب کا کچھ ایسا مزاج تھا کہ لڑائی کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ جب اوس اور خزرج میں لڑائی ہوتی تھی تو بنو قریظہ اوس کی مدد کرتے تھے اور بنو نضیر خزرج کے حمایتی بن جاتے تھے اس میں جہاں اوس اور خزرج کے افراد مارے جاتے اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوتے وہاں یہودیوں کے دونوں قبیلوں کے افراد بھی مارے جاتے تھے اور بہت سے افراد ترک وطن پر مجبور ہوجاتے تھے۔ اور جب بنی نضیر اور بنی قریظہ کے کسی فرد کو دشمن قید کرلیتا تو اس کے چھڑانے کے لیے ان کی دونوں جماعتیں پیسے خرچ کرنے کے لیے تیار ہوجاتی تھیں جب ان سے کوئی پوچھتا کہ تم اس کو کیوں چھڑا رہے ہو تمہاری حرکت سے تو وہ دشمن کے قبضے میں گیا ہے اور ترک وطن پر مجبور ہوا ہے۔ تو جواب دیتے تھے کہ ہم کو شریعت موسوی میں یہ حکم دیا گیا کہ جب کسی کو قیدی دیکھو تو اسے رہائی دلا دو ۔ لہٰذا ہم اس حکم کی پابندی کرتے ہیں وہ اس حکم پر عمل کرنے کو تو تیار تھے کہ قیدی کو رہائی دلا دو ۔ لیکن جس وجہ سے وہ گھر سے بےگھر ہوا اور دشمن کے چنگل میں پڑ کر قیدی ہوا اس کے اختیار کرنے یعنی اپنوں کے مقابلہ میں جنگ کرنے والوں کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ ان سے کہا جاتا تھا کہ تم یہ کیا کرتے ہو تم خود ہی اپنوں کے مقابلہ میں مددگار بنے اور اس قتال کی وجہ سے تمہارا آدمی گرفتار ہو کر قیدی ہوا، اب اس کے چھڑانے کو تیار ہو۔ ؟ اس کا جواب یہ دیتے تھے کہ چونکہ اوس اور خزرج ہمارے حلیف ہیں اس لیے ان کی مدد کرنے پر مجبور ہیں۔ اللہ جل شانہٗ نے اسی کو بیان فرمایا کہ :
Top