Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 94
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں اِنْ کَانَتْ : اگر ہے لَكُمُ ۔ الدَّارُ الْآخِرَةُ : تمہارے لئے۔ آخرت کا گھر عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس خَالِصَةً : خاص طور پر مِنْ دُوْنِ : سوائے النَّاسِ : لوگ فَتَمَنَّوُا : تو تم آرزو کرو الْمَوْتَ : موت اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
آپ فرما دیجیے اگر آخرت والا گھر اللہ کے نزدیک خالص تمہارے ہی لیے ہے دوسروں کے لیے نہیں تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو
یہودیوں کو دعوت مباہلہ کہ موت کی تمنا کریں یہودیوں کے دعوؤں اور آرزوؤں میں یہ بھی تھا کہ عالم آخرت کی خیر اور خوبی اور جنت کا داخلہ اور نعمتوں کا حصول یہ سب کچھ ہمارے لیے ہی خاص ہے دوسرے کسی دین والے اور کسی بھی قوم اور نسل کے لوگ جنت میں نہ جائیں گے ان کے اس خیالی جھوٹے دعوے اور جھوٹی آرزو کے پیش نظر ان کو مباہلہ کی دعوت دی گئی کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو آجاؤ ہم اور تم مل کر موت کی دعا کریں کہ دونوں فریق میں سے جو بھی جھوٹا ہو وہ ابھی فوراً مرجائے جب یہ بات سامنے آئی تو اس پر آمادہ نہ ہوئے اور راہ فرار اختیار کرلی۔ حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر اسی طرح کی ہے اور انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ یہ لوگ موت کی تمنا کرتے تو اسی وقت مرجاتے۔ مفسر ابن جریر نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر یہودی موت کی تمنا کرتے تو اسی وقت مرجاتے اور دوزخ میں اپنا اپنا ٹھکانا دیکھ لیتے اور مباہلہ کے لیے نکلتے تو واپس ہو کر نہ جاتے اور اور مآل کچھ بھی نہ پاتے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ انہیں اپنا کفر اور بد اعمالیاں معلوم ہیں وہ ہرگز موت کی تمنا نہیں کرسکتے، اور اللہ تعالیٰ سب مجرموں اور ظالموں کو جانتا ہی ہے جو ہر ایک کو اس کا بدلہ دے دے گا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ یہ کیا موت کی آرزو کرسکتے ہیں۔ یہ تو سب لوگوں سے زیادہ زندگی کی حرص رکھتے ہیں۔ جو لوگ مشرک ہیں اللہ کی کسی کتاب کو نہیں مانتے ان سے بھی زیادہ دنیا میں رہنے اور جینے کے حریص ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ کاش ہزار سال زندہ رہ جاتے اگر ہزار سال بھی زندہ رہ جائیں تو اس کی وجہ سے عذاب سے چھٹکارہ نہیں ہوسکتا کبھی تو موت آہی جائیگی اور موت کے بعد وہی عذاب کا سامنا اور دوزخ کا داخلہ ہوگا جو اہل کفر کے لیے طے شدہ ہے، ابلیس کو ہزاروں سال کی زندگی دے دی گئی مگر انجام دوزخ ہی ہے۔ سورۂ الجمعہ میں بھی یہ مضمون مذکورہ ہے۔ وہاں فرمایا ہے : (قُلْ اِِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِِنَّہٗ مُلاَقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ اِِلٰی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِِلٰی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) ” آپ فرما دیجیے کہ بلاشبہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو تم ضرور اس سے ملاقات کرنے والے ہو پھر اس کی طرف لوٹادئیے جاؤ گے جو غیب اور شہادۃ کو جانتا ہے پھر وہ تمہیں تمہارے کاموں کی خبر دے دے گا۔ “ مفسر ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اوپر جو آیت کی تفسیر بیان ہوئی کہ یہود کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تھی یہی تفسیر صحیح ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا نجران کے نصاری کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تھی جو سورة آل عمران میں مذکور ہے۔ (ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ) اس کے بعد ابن کثیرفرماتے ہیں کہ بعض حضرات نے آیت کی تفسیر میں یوں کہا ہے کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو کہ دار آخرت تمہارے ہی لیے خاص ہے تو موت کی تمنا کرو تاکہ مرنے کے ساتھ ہی جنت میں چلے جاؤ اور دنیا کی تکلیفوں سے محفوظ و مامون ہوجاؤ۔ اس دوسری تفسیر میں مباہلہ کا ذکر نہیں بلکہ صرف آرزوئے موت کی دعوت دی گئی۔ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ آیت کا یہ معنی لے کر ان لوگوں پر حجت قائم نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اپنے دعوی میں سچا ہونا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ موت کی تمنا بھی کرے کیونکہ وہ الٹ کر یہ کہہ سکتے تھے کہ اے مسلمانو ! تم بھی تو اپنے بارے میں جنتی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہو تم بھی حالت صحت اور تندرستی میں موت کی تمنا نہیں کرتے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
Top