بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کا حساب قریب آگیا اور وہ غفلت میں اعراض کیے ہوئے ہیں
منکرین کے عناد کا تذکرہ اور ان کی معاندانہ باتوں کا جواب یہاں سے سورة الانبیاء شروع ہو رہی ہے۔ اس میں چوتھے رکوع کے ختم تک معاندین اور منکرین توحید و رسالت اور منکرین آخرت کی تردید ہے۔ پھر پانچوں رکوع میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا ہے۔ انہوں نے جو اپنی قوم سے خطاب کیا اور بتوں کو توڑنے پر جو قوم نے ان سے سوال و جواب کیے اور انہیں آگ میں ڈالا اس کا تدکرہ ہے۔ اس کے بعد حضرت لوط، حضرت نوح، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان اور حضرت ایوب اور حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل اور حضرت ذوالنون (یعنی حضرت یونس) اور حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ اور حضرت مریم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے پھر آخر سورة تک مختلف مواعظ ہیں اور انہیں کے ذیل میں یاجوج و ماجوج کے خروج اور وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اول تو یہ فرمایا گیا کہ لوگوں کا حساب قریب آگیا اور وہ اپنی غفلتوں میں رو گردانی کیے ہوئے ہیں۔ انہیں کوئی فکر نہیں کہ قیامت ہوگی اور حساب ہوگا اور یہ ان کی غفلت اس لیے ہے کہ وقوع قیامت کو مانتے ہی نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بھی نئی نصیحت ان کے پاس آتی ہے یعنی کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں اور ان کے دل غافل ہوتے ہیں اور رسول اللہ کی تکذیب بھی کرتے ہیں اور چپکے چپکے آپس میں یوں کہتے ہیں کہ یہ شخص جو یوں کہتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں یہ تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہے اور یہ جو کچھ معجزہ کے نام سے تمہیں دکھاتا ہے یہ جادو ہے۔ کیا تم جانتے بوجھتے جادو کو مان لو گے اور اس پر ایمان لاؤ گے ؟ ان کی ان باتوں کا جواب رسول اللہ نے یوں دیا کہ آسمان میں اور زمین میں جو بات ہوتی ہے کیسی ہی خفیہ اور پوشیدہ ہو میرا رب اسے خوب جانتا ہے اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔ تمہاری باتوں کا اسے علم ہے وہ ان کی سزا دے گا۔ ان لوگوں نے قرآن مجید کو ماننے سے بھی انکار کیا اور کہنے لگے کہ یہ تو خوابوں کی گٹھڑیاں ہیں۔ ان کو خواب میں کچھ باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں انہیں کو پیش کردیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا۔ اس سے بڑھ کر انہوں نے یوں کہا کہ یہ باتیں خود ہی اپنے پاس سے بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر یوں کہہ دیتے ہیں کہ یہ شاعر ہے۔ وہ لوگ یہ سب عناد اور ضد میں کہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آپ شاعر نہیں اور جو اللہ کا کلام پیش کرتے ہیں وہ نہ شعر ہے نہ شاعری ہے۔ شاعروں کی تک بندیوں اور دنیائے خیالات کی باتوں سے بلند اور بالا ہے۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ جو نبوت کا دعویٰ کر رہے ہیں اگر یہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو جیسے ان سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) نشانیاں لے کر آئے یہ بھی کوئی ایسی نشانی لے کر آئیں۔ معجزات تو بہت تھے جنہیں بارہا دیکھتے رہتے تھے اور سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے جس کی چھوٹی سی ایک سورة کے مقابلہ میں ذرا سی عبارت بنا کر لانے سے بھی عاجز تھے۔ لیکن ان معجزات موجودہ کے علاوہ اپنے فرمائشی معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ معاندین کی اس بات کا ذکر قرآن مجید میں کئی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ لوگوں کا پابند نہیں کہ جو لوگ معجزہ چاہیں وہی بھیجے۔ اور ان سے پہلے بعض امتوں کے پاس فرمائشی معجزہ آیا وہ پھر بھی ایمان نہ لائے لہٰذا ہلاک کردیئے گئے۔ اسی کو فرمایا (مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَھُمْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰھَا) ان سے پہلے کسی بستی والے جن کو ہم نے ہلاک کیا (فرمائشی معجزات ظاہر ہونے پر بھی) ایمان نہ لائے (اَفَھُمْ یُؤْمِنُوْنَ ) (کیا یہ ایمان لے آئیں گے) اگر یہ ایمان نہ لائے تو پرانی امتوں کی طرح ان پر بھی عذاب نازل ہوجائے گا اور چونکہ ابھی عذاب نازل فرمانا قضا و قدر میں نہیں ہے اس لیے فرمائشی معجزات ظاہر نہیں کیے جاتے۔ وہ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ صاحب جو نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں یہ تو تمہاری طرح کے آدمی ہیں اور ان کا مطلب یہ تھا کہ آدمی نبی اور رسول نہیں ہوسکتا۔ ان کے جواب میں اللہ جل شانہ نے فرمایا (وَ مَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رْجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ ) (اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ہیں وہ سب مرد ہی تھے۔ یعنی آدمی ہی تھے۔ ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے) نبی اور غیر نبی میں وحی آنے نہ آنے کا فرق ہے۔ ایسا کوئی قانون نہیں کہ جو نبی ہو وہ بشر نہ ہو۔ (فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) (اگر تم اس بات کو نہیں جانتے تو اہل ذکر یعنی اہل کتاب سے پوچھ لو) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں فسئلوا ایھا الجھلۃ اھل الکتاب الواقفین علی احوال الرسل السالفۃ علیھم الصلوۃ والسلام لتزول شبھتکم مطلب یہ ہے کہ اے جاہلو اہل کتاب سے پوچھ لو جنہیں گزشتہ رسولوں کے حالات معلوم ہیں۔ وہ تمہیں بتادیں گے کہ انبیاء (علیہ السلام) انسان تھے، بشر تھے۔ تم اہل کتاب سے یہ مشورہ تو کرتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کا امتحان کرنے کے لیے آپ سے کیا پوچھیں۔ ذرا یہ بھی تو پوچھ لو کہ پہلے جو انبیاء کرام تشریف لائے تھے کیا وہ بشر کے علاوہ کسی دوسری جنس کے افراد تھے۔ تمہیں تو انبیاء سابقین ( علیہ السلام) کی خاص خبر بھی نہ تھی۔ اہل کتاب ہی کے بتانے سے تمہیں ان کے بارے میں کچھ علم ہوا ہے اور اہل کتاب ہی کے سمجھانے سے تم نے یہ کہا ہے (فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ کَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ ) تم ان سے معلوم کرتے رہتے ہو تو یہ بھی معلوم کرو کہ انبیاء سابقین ( علیہ السلام) بشر تھے یا بشر کے علاوہ اور کسی جنس سے تھے ؟ جب تم ان سے پوچھو گے اور وہ صحیح جواب دیں گے تو یہی بتائیں گے کہ انبیاء سابقین ( علیہ السلام) انسان تھے بشر تھے۔ جب وہ حضرات بشر تھے تو خاتم النّبیین ﷺ کے بشر ہوتے ہوئے نبی ہونے پر کیا اعتراض ہے۔
Top