Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 101
اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤى١ۙ اُولٰٓئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ سَبَقَتْ : پہلے ٹھہر چکی لَهُمْ : ان کے لیے مِّنَّا : ہماری (طرف) سے الْحُسْنٰٓى : بھلائی اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ عَنْهَا : اس سے مُبْعَدُوْنَ : دور رکھے جائیں گے
بلاشبہ جن کے لیے پہلے ہی ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ مقرر ہوچکا ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے
جن کے بارے میں بھلائی کا فیصلہ ہوچکا وہ دوزخ سے دور رہیں گے جب آیت (اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) (الایۃ) نازل ہوئی تو عبداللہ بن الزبعریٰ نے اعتراض کیا (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوا تھا) کہ پھر تو عیسیٰ اور عزیر اور فرشتے سب یہ دوزخ میں جائیں گے کیونکہ ان کی بھی عبادت کی جاتی رہی ہے۔ اس پر آئندہ آیت کریمہ (اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنآی اولٰٓءِکَ عَنْھَامُبْعَدُوْنَ ) نازل ہوئی (بلاشبہ جن کے لیے پہلے ہی ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ ہوچکا ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے (لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَ ھُمْ فِیْ مَا اشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خٰلِدُوْنَ ) (وہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گی اور اپنی جی چاہی چیزوں میں ہمیشہ رہیں گے) (لَا یَحْزُنُھُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ ) (ان کو بڑی گھبراہٹ غم میں نہ ڈالے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے) ان آیات میں معترض کا جواب دے دیا ہے اور فرما دیا کہ جن حضرات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے طے فرما دیا ہے کہ ان کے لیے خوبی اور بہتری ہے اور انعام و اکرام ہے وہ جہنم سے دور رہیں گے۔ جہنم میں جانا تو کجا وہ جہنم کی آہٹ بھی نہ سنیں گے۔ وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ وہاں اپنی نفس کی خواہشوں کے مطابق زندگی گزاریں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ انہیں بڑی گھبراہٹ رنجیدہ نہ کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ بڑی گھبراہٹ سے کیا مراد ہے، اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے کئی قول لکھے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے نفخہ ثانیہ مراد ہے۔ یعنی جب دو بارہ صور پھونکا جائے گا اور قبروں سے نکل کرمیدان حشر کی طرف روانہ ہوں گے اس وقت کی گھبراہٹ مراد ہے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے اور حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ جس وقت دوزخیوں کو دوزخ میں جانے کا حکم ہوگا اس سے اس وقت کی گھبراہٹ مراد ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جس وقت موت کو مینڈھے کی شکل میں لا کر جنت اور دوزخ کے درمیان ذبح کیا جائے گا اس وقت جو کیفیت ہوگی اسے فزع اکبر یعنی بڑی گھبراہٹ سے تعبیر فرمایا ہے۔ درحقیقت ان اقوال میں کوئی تنافی اور تعارض نہیں ہے۔ جن حضرات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے طے فرما دیا کہ ان کے لیے خوبی ہی خوبی ہے۔ دوزخ سے دوری ہے اور جنت کا داخلہ ہے۔ انہیں کوئی بھی گھبراہٹ رنجیدہ نہ کرے گی۔ (وَ تَتَلَقّٰھُمُ الْمَلآءِکَۃُ ) (جب وہ قبروں سے اٹھیں گے تو فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور فرشتے ان سے یوں بھی کہیں گے (ھٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ) (کہ تمہارا یہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا) تمہیں ایمان اور اعمال صالحہ پر اجر وثواب کی جو خوشخبری دی جاتی تھی آج اس خوشخبری کے مطابق تمہیں امن چین، عیش و آرام اکرام و انعام سب کچھ حاصل ہے۔
Top