Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 107
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر
رسول اللہ ﷺ رحمۃ للعالمین ہی ہیں آیت بالا میں رسول اللہ ﷺ کو رحمۃ للعالمین کا مبارک اور معظم لقب عطا فرمایا اور سورة توبہ میں آپ کو رؤف رحیم کے لقب سے سر فراز فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا انما انا رحمت مھداۃ (یعنی میں اللہ کی طرف سے مخلوق کی طرف بطور ہدیہ بھیجا گیا ہوں اور سراپا رحمت ہوں۔ ) ایک حدیث میں ارشاد ہے آپ نے فرمایا ان اللہ تعالیٰ بعثنی رحمۃ للعالمین وھدی للعالمین و امرنی ربی بمحق المعازف و المزامیر والاوثان و الصلیب وامر الجاھلیۃ (بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سارے جہانوں کے لیے ہدایت اور رحمت بنا کر بھیجا اور میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ گانے بجانے کی چیزوں کو مٹا دوں اور بتوں کو اور صلیب کو (جس کی نصرانی پرستش کرتے ہیں) اور جاہلیت کے کاموں کو مٹا دوں۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کی رحمت عام ہے آپ کی تشریف آوری سے پہلے سارا عالم کفر و شرک کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ آپ تشریف لائے سو توں کو جگایا، حق کی طرف بلایا۔ اس وقت سے لے کر آج تک کروڑوں انسان اور جنات ہدایت پا چکے ہیں۔ ساری دنیا کفر و شرک کی وجہ سے ہلاکت اور بربادی کے دہانہ پر کھڑی تھی۔ آپ ﷺ کے تشریف لانے سے دنیا میں ایمان کی ہوا چلی، توحید کی روشنی پھیلی جب تک دنیا میں اہل ایمان رہیں گے قیامت نہیں آئے گی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دنیا میں اللہ اللہ کہا جاتا رہے گا۔ (صحیح مسلم ص 84، ج 1) یہ اللہ کی یاد آپ ﷺ ہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ عالم کے لیے آسمانوں کے اور زمین کے رہنے والے حتیٰ کہ مچھلیاں پانی میں استغفار کرتی ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص 34) اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ جب تک علوم نبوت کے مطابق دنیا میں اعمال موجود ہیں اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی۔ اگر یہ نہ ہوں تو قیامت آجائے۔ اس لیے ہمیں دینی علوم کے طلباء کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ کا نام لے کر پوچھتا ہے کیا آج تیرے اوپر سے کوئی ایسا شخص گزرا ہے جس نے اللہ کا نام لیا ہو۔ اگر وہ پہاڑ جواب میں کہتا ہے کہ ہاں ایک ایسا شخص گزرا تھا تو یہ جواب سن کر سوال کرنے والا پہاڑ خوش ہوتا ہے۔ (ذکر ابن الجزری فی الحصن الحصین) اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ایک شخص ایک پہاڑ پر گزرا اور دوسرے پہاڑ کو یہ بات معلوم کر کے خوشی ہوئی اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ عموماً مومن بندے جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں اس سے عالم کی بقا ہے۔ مجموعہ عالم میں آسمان، زمین، چرند پرند، چھوٹے بڑے حیوانات اور جمادات سبھی ہیں۔ قیامت آئے گی تو کچھ بھی نہ رہے گا۔ سب کی بقا اہل ایمان کی وجہ سے ہے اور ایمان کی دولت رحمت للعالمین ﷺ سے ملی ہے۔ اس اعتبار سے آپ ﷺ کا رحمۃ للعالمین ہونا ظاہر ہے۔ اور اس اعتبار سے بھی آپ ﷺ سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں کہ آپ ﷺ نے ایمان اور ان اعمال کی دعوت دی جن کی وجہ سے دنیا میں اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی ہے اور آخرت میں بھی ایمان اور اعمال صالحہ والوں کے لیے رحمت ہوگی جو لوگ آپ ﷺ پر ایمان نہیں لاتے انہوں نے رحمت سے فائدہ نہیں اٹھایا جیسا کہ نابینا آدمی کو آفتاب کے طلوع ہونے سے روشنی کا فائدہ نہیں ہوتا۔ روشنی سے نابینا کا محروم ہونا سورج کے تاریک ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ آپ ﷺ سے پہلے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی امتیں جب اسلام قبول نہیں کرتی تھیں تو ان پر عذاب آجاتا تھا اور نبی کی موجودگی میں ہی ہلاک کردی جاتی تھیں۔ آپ ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا اس بات میں بھی مظاہرہ ہے کہ عمومی طور پر سبھی منکرین اور کافرین ہلاک ہوجائیں۔ ایسا نہیں ہوگا۔ آخرت میں کافروں کو کفر کی وجہ سے جو عذاب ہوگا۔ وہ آخرت سے متعلق ہے۔ دنیا میں آپ کو کیسی کیسی تکلیفیں دی گئیں اور کس کس طرح ستایا گیا آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ رحمت ہی کا برتاؤ کیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ آپ مشرکین کے لیے بد دعا کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انی لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمۃ (میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ ) (مشکوٰۃ المصابیح، ص 519) آپ طائف تشریف لے گئے وہاں دین حق کی دعوت دی۔ وہ لوگ ایمان نہ لائے اور آپ کے ساتھ بد خلقی کا بہت برا برتاؤ کیا۔ پہاڑوں پر مقرر فرشتہ نے آکر خدمت عالی میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ فرمائیں تو ان لوگوں کو پہاڑوں کے بیچ میں کچل دوں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی وحدانیت کا اقرار کریں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص 523) سورۂ توبہ میں آپ ﷺ کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے (عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ ) یعنی امت کو جس چیز سے تکلیف ہو وہ آپ ﷺ کو شاق گزرتی ہے اور آپ ﷺ کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ (حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ ) آپ ﷺ امت کے نفع کے لیے حریص ہیں، اہل ایمان کو اعمال صالحہ سے بھی متصف دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی حرص ہے کہ ان کے دنیاوی حالات درست ہوجائیں۔ (بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ) آپ ﷺ کو اپنی امت کے ساتھ رافت اور رحمت کا تعلق ہے۔ آپ ﷺ کا تعلق صرف اتنا نہیں تھا کہ بات کہہ کر بےتعلق ہوجاتے۔ آپ ﷺ کو اپنی امت سے قلبی تعلق تھا۔ ظاہراً بھی آپ ﷺ ان کے ہمدرد تھے اور باطناً بھی۔ امت کو جو تکلیف ہوتی اس میں آپ ﷺ بھی شریک ہوتے اور جس کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی آپ ﷺ کو اس سے کڑھن ہوتی تھی۔ حضرات صحابہ میں کسی کو تکلیف ہوجاتی تھی تو اس کے لیے فکر مند ہوتے تھے۔ عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے، دوا بتاتے تھے، مریض کو تسلی دینے کی تعلیم دیتے تھے۔ تکلیفوں سے بچانے کے لیے ان امور کی تعلیم دیتے تھے، جن سے تکلیف پہنچنے کا اندیشہ تھا اور جن سے انسان کو خود ہی بچنا چاہیے لیکن آپ ﷺ کی شفقت کا تقاضا یہ تھا کہ ایسے امور کو بھی واضح فرماتے تھے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے کسی ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا جس کی منڈیر بنی ہوئی نہ ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص 404) اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ کہ جو شخص (ہاتھ دھوئے بغیر) اس حالت میں سو گیا کہ اس کے ہاتھ میں چکنائی لگی ہوئی تھی پھر اسے کوئی تکلیف پہنچ گئی (مثلاً کسی جانور نے ڈس لیا) تو وہ اپنی ہی جان کو ملامت کرے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص 366) آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص رات کو سونے کے بعد بیدار ہو تو ہاتھ دھوئے بغیر پانی میں ہاتھ نہ ڈالے۔ کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا ہے (ممکن ہے کہ اسے کوئی ناپاک چیز لگ گئی ہو یا اس پر زہریلا جانور گزر گیا ہو) (رواہ البخاری و مسلم) جوتے پہننے کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زیادہ تر جوتے پہنے رہا کرو۔ کیونکہ آدمی جب تک جوتے پہنے رہتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص سوار ہو۔ جیسے جانور پر سوار ہونے والا زمین کے کیڑے مکوڑوں اور گندی چیزوں اور کانٹوں اور اینٹ پتھر کے ٹکڑوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ایسے ہی ان چیزوں سے جوتے پہننے والے کی بھی حفاظت رہتی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص 379) نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب چلتے چلتے کسی کا چپل کا تسمہ ٹوٹ جائے تو ایک چپل میں نہ چلے۔ یہاں تک کہ دوسرے چپل کو درست نہ کرلے (پھر دونوں کو پہن کر چلے) اور یہ بھی فرمایا کہ ایک موزہ پہن کر نہ چلے (کیونکہ ان صورتوں میں ایک قدم اونچا اور ایک قدم نیچا ہو کر توازن صحیح نہیں رہتا) آپ ﷺ امت کو اس طرح تعلیم دیتے تھے جیسے ماں باپ اپنے بچوں کو سکھاتے اور بتاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں تمہارے لیے باپ ہی کی طرح ہوں۔ میں تمہیں سکھاتا ہوں (پھر فرمایا کہ) جب تم قضاء حاجت کی جگہ جاؤ تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرو نہ پشت کرو اور آپ ﷺ نے تین پتھروں سے استنجا کرنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ لید سے اور ہڈی سے استنجا نہ کرو اور دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص 42) اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو جگہ کو دیکھ بھال لے (مثلاً پکی جگہ نہ ہو، جہاں سے چھینٹے اڑیں اور ہوا کا رخ نہ ہو وغیرہ۔ (مشکوٰۃ ص 42) نیز آپ ﷺ نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا (مشکوٰۃ المصابیح) کیونکہ ان میں جنات اور کیڑے مکوڑے رہتے ہیں۔ اگر کتب حدیث میں زیادہ وسیع نظر ڈالی جائے تو اس طرح کی بہت سی تعلیمات سامنے آجائیں گی جو سراسر شفقت پر مبنی ہیں۔ اس شفقت کا تقاضا تھا کہ آپ کو یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی بھی مومن عذاب میں مبتلا ہوجائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی۔ جب چاروں طرف روشنی ہوگئی تو پروانے اس آگ میں آکر گرنے لگے۔ وہ شخص ان کو روکتا ہے کہ آگ میں نہ گریں لیکن وہ اس پر غالب آجاتے ہیں اور آگ میں گرتے ہیں۔ اسی طرح میں بھی تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں اور تم زبردستی اس میں گرتے ہو۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے جو گناہوں پر وعیدیں بتائی ہیں اور عذاب کی خبریں دی ہیں ان پر دھیان نہیں دیتے۔ (رواہ البخاری و مسلم) سورة آل عمران میں آپ ﷺ کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ) (سو اللہ کی رحمت کے سبب آپ ﷺ ان کے لیے نرم ہوگئے اور اگر آپ ﷺ سخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ سو آپ ﷺ ان کو معاف فرما دیجیے اور ان کے لیے استغفار کیجیے اور کاموں میں ان سے مشورہ لیجیے۔ پھر جب آپ پختہ عزم کرلیں تو آپ اللہ پر توکل کیجیے۔ بیشک توکل کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں) ۔ آیت بالا میں جہاں آپ ﷺ کی خوش خلقی اور نرم مزاجی اور رحمت و شفقت کا ذکر ہے وہاں اس امر کی بھی تصریح ہے کہ اگر آپ ﷺ سخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ صحابہ جو آپ ﷺ کے پاس جمع ہیں، جو آپ ﷺ سے بےپناہ محبت کرتے ہیں وہ آپ ﷺ کے پاس سے چلے جاتے اور منتشر ہوجاتے ہیں، حضرت سعدی نے کیا اچھا فرمایا کس نہ بیند کہ ان حجاز برلب آب شور گرد آیند ہر کجا چشمہ بود شیریں مردم و مرغ و مور گرد آیند رسول اللہ ﷺ کے اخلاق عالیہ میں شفقت اور رحمت کا ہمیشہ مظاہرہ ہوتا رہتا تھا۔ جب کوئی شخص آپ ﷺ سے مصافحہ کرتا تو آپ ﷺ اس کے ہاتھ میں سے اپنا ہاتھ نہیں نکالتے تھے جب تک کہ وہی اپنا ہاتھ نکالنے کی ابتداء نہ کرتا اور جس سے ملاقات ہوتی تھی اس کی طرف سے خود چہرہ نہیں پھیرتے تھے یہاں تک کہ وہی اپنا رخ پھیر کر جانا چاہتا تو چلا جاتا تھا۔ حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے اہل و عیال سے شفقت کرنے میں رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر ہو۔ حضرت انس ؓ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی، مجھ سے کبھی کچھ نقصان ہوگیا تو مجھے کبھی ملامت نہیں فرمائی۔ اگر آپ کے گھر والوں میں سے کسی نے ملامت کی تو فرمایا کہ رہنے دو ۔ اگر کوئی چیز اللہ کے قضا و قدر میں ہے تو وہ ہو کر ہی رہے گی۔ آپ رحمۃ للعالمین تھے۔ دوسروں کو بھی رحم کرنے کا حکم فرمایا۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ اس پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (رواہ البخاری و مسلم) آپ نے فرمایا کہ مومنین کو ایک دوسرے پر رحم کرنے اور آپس میں محبت اور شفقت کرنے میں ایسا ہونا چاہیے جیسے ایک ہی جسم ہو۔ جسم کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم جاگتا رہتا ہے اور سارے جسم کو بخار چڑھ جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اس شخص کے دل سے رحمت نکال لی جاتی ہے جو بد بخت ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح، باب الشفقۃ و الرحمۃ علی الخلق) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ کرے اور برائیوں سے نہ روکے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص 423) امت محمدیہ پر لازم ہے کہ اپنے نبی ﷺ کا اتباع کریں اور سب آپس میں رحمت و شفقت کے ساتھ مل کر رہیں اور اپنی معاشرت میں رحمت و شفقت کا مظاہرہ کریں۔ سورة توبہ کی آخری آیت (لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ) کی تفسیر بھی ملاحظہ کرلیں۔
Top