Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 18
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ١ؕ وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ
بَلْ : بلکہ نَقْذِفُ : ہم پھینک مارتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کو عَلَي : پر الْبَاطِلِ : باطل فَيَدْمَغُهٗ : پس وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے فَاِذَا : تو اس وقت هُوَ : وہ زَاهِقٌ : نابود ہوجاتا ہے وَلَكُمُ : اور تمہارے لیے الْوَيْلُ : خرابی مِمَّا : اس سے جو تَصِفُوْنَ : تم بناتے ہو
بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں سو وہ اس کا سر پھوڑ دیتا ہے، پھر وہ چلا جاتا ہے، اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو
اثبات توحید، ابطال شرک اور حق کی فتح یابی ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ ہم نے جو آسمان و زمین پیدا کیے ہیں ان کا پیدا کرنا کوئی فعل عبث کے طور پر نہیں ہیں بلکہ اس میں بڑی حکمتیں ہیں جن میں ایک بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ ان کے وجود اور ان کی بڑائی اور پھیلاؤ سے ان کے خالق کو پہچانیں۔ اگر آسمان و زمین کے بنانے سے کوئی حکومت مقصود نہ ہوتی محض ایک مشغلہ ہی کے طور پر بنانا مقصود ہوتا تو ہم اپنے پاس سے کسی چیز کو مشغلہ بنا لیتے لیکن ہمیں یہ کرنا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات عالی صفات اس سے برتر اور بالا ہے کہ وہ کسی چیز کو بطور لہو و لعب پیدا فرمائیں اور کسی چیز کو بطور لہو و لعب کے اختیار فرمائیں۔ دنیا میں چونکہ حق و باطل کا معرکہ رہتا ہے اور آخر میں حق ہی غالب ہوتا ہے اس لیے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا (نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْ مَغُہٗ ) کہ ہم حق کو باطل پر پھینک دیتے ہیں سو وہ باطل کا سر پھوڑ دیتا ہے۔ یعنی اس کو مغلوب کردیتا ہے۔ قال صاحب معالم التنزیل اصل الدمغ شج الراس حتی یبلغ الدماغ فاذا ھو ذاھق سو باطل مغلوب ہو کر دفع ہوجاتا ہے۔ (وَلَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ ) اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو یعنی حق کے خلاف بولتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی شان میں جو ایسی باتیں کرتے ہو جن سے وہ پاک ہے اس حرکت کی وجہ سے تمہارے لیے خرابی ہے، یعنی ہلاکت ہے۔ (وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ) (الآیتین) اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کی مملوک اور مخلوق ہے اور جو بندے اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے سر کشی نہیں کرتے اور اس میں عار نہیں سمجھتے کہ وہ اس کی عبادت میں مشغول ہوں۔ وہ برابر اس کی عبادت میں لگے رہتے ہیں ذرا سستی نہیں کرتے۔ رات دن اس کی تسبیح میں مشغول ہیں۔ تھکنے کا نام نہیں۔ ان تسبیح و تقدیس میں مشغول رہنے والوں سے فرشتے مراد ہیں۔ اس کی عبادت اور تسبیح اور تقدیس میں مشغول علی الدوام ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معبود برحق مانتے اور جانتے ہیں۔ اہل دنیا میں جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ اپنی جہالت اور بےعقلی سے شرک میں مبتلا ہیں۔
Top