Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 34
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡئِنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنَا : ہم نے نہیں کیا لِبَشَرٍ : کہ بشر کے لیے مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل الْخُلْدَ : ہمیشہ رہنا اَفَا۟ئِنْ : کیا پس اگر مِّتَّ : آپ نے انتقال کرلیا فَهُمُ : پس وہ الْخٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشہ رہنا تجویز نہیں کیا، اگر آپ کی وفات ہوجائے تو وہ لوگ کیا ہمیشہ رہیں گے،
منکرین و معاندین کا آپ کی موت کا آرزو مند ہونا اور آپ کے ساتھ تمسخر کرنا، اور تمسخر کی وجہ سے عذاب کا مستحق ہونا اہل مکہ و دیگر مشرکین رسول اللہ ﷺ کے دنیا کے رخصت ہونے کا انتظار کرتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ بس جی ان کی یہ باتیں تھوڑے ہی دن کی ہیں چند دن میں ختم ہوجائیں گی۔ چند دن ان کی زندگی ہے آج دنیا سے گئے کل دوسرا دن۔ کون انہیں پوچھے گا اور ان کی باتیں کہاں تک چلیں گی ؟ اسی کو سورة طور میں فرمایا (اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ ) لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خود ہمیں ہی دنیا میں کتنے دن رہنا ہے۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا (وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ ) (کہ ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کے لیے ہمیشہ رہنا تجویز نہیں کیا) دنیا میں جو بھی آئے ہیں سب کو موت سے دو چار ہونا ہے۔ (اَفَاْءِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ ) (اگر آپ کی وفات ہوگئی تو کیا یہ ہمیشہ رہیں گے) مرنا تو ان کو بھی ہے اور حال یہ ہے کہ آپ کی موت کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ مزید فرمایا (کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ ) (ہر جان موت کو چکھنے والی ہے) جب سب کو مرنا ہی ہے اور قیامت کے دن جمع ہونا ہے تو ہر شخص اس کی فکر کرے کہ وہاں میرا کیا ہوگا، اللہ کے نبی کی تکذیب کرنے پر عذاب ہوگا اور اس سے چھٹکارا کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے فکر مند ہوں تو ایمان کی توفیق ہوجائے گی۔ اس میں بھی مخالفین کے اس گمان کی تردید ہے کہ محمد عنقریب دنیا سے اٹھ جائیں گے تو ہم لوگوں سے کہیں گے کہ دیکھو اگر یہ نبی ہوتے تو وفات کیوں پاتے۔
Top