Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 71
وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ
وَنَجَّيْنٰهُ : اور ہم نے اسے بچا لیا وَلُوْطًا : اور لوط اِلَى : طرف الْاَرْضِ : سرزمین الَّتِيْ بٰرَكْنَا : وہ جس میں ہمنے برکت رکھی فِيْهَا : اس میں لِلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور ہم نے ابراہیم کو اور لوط کو اس سرزمین کی طرف نجات دے دی جس میں ہم نے دنیا جہان والوں کے لیے برکت رکھ دی ہے،
حضرت ابراہیم اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کا مبارک سر زمین کی طرف ہجرت کرنا حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چچا کے بیٹے تھے۔ ان آیات میں ان دونوں کی ہجرت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ دونوں اپنے علاقہ کو چھوڑ کر شام کے علاقہ فلسطین میں چلے گئے تھے۔ بتوں کی سر زمین کو اور بتوں کے پوجنے والوں کو چھوڑ کر اس سر زمین کے لیے ہجرت کی۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے برکات رکھی ہیں۔ اور یہ برکات دنیا جہان والوں کے لیے ہیں، ان کے اس ہجرت کرنے کو نجات سے تعبیر فرمایا کیونکہ کافروں سے چھوٹ کر بابرکت سر زمین میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ پھر فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو اسحاق نامی بیٹا عطا کیا اور پھر اس بیٹے کا بیٹا یعقوب بھی دیا جو مزید انعام تھا۔ اسی مزید انعام کی وجہ سے پوتے کو نافلہ سے تعبیر فرمایا، اور ان سب کو صالحین میں سے بنا دیا۔ سب اللہ تعالیٰ کے احکام پرچلتے تھے اور اس کے اوامر کی پابندی کرتے تھے، چونکہ نبی تھے اور پیشوا تھے۔ اس لیے دوسروں کو بھی اللہ کی توحید اور اللہ کی دعوت دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا کہ نیک کام کریں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں۔ وہ ان کاموں میں لگے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغولیت ان کا خصوصی امتیاز تھا جس کا انہیں اہتمام تھا۔ اسی کو فرمایا وَ کَانُوْا لَنَا عَابِدِیْنَ ۔
Top