Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 11
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ اِ۟طْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ اِ۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّعْبُدُ : بندگی کرتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر حَرْفٍ : ایک کنارہ فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَهٗ : اسے پہنچ گئی خَيْرُ : بھلائی ۨ اطْمَاَنَّ : تو اطمینان پالیا بِهٖ : اس سے وَاِنْ : اور اگر اَصَابَتْهُ : اسے پہنچی فِتْنَةُ : کوئی آزمائش ۨ انْقَلَبَ : تو پلٹ گیا عَلٰي : پر۔ بل وَجْهِهٖ : اپنا منہ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا : دنا کا فساد وَالْاٰخِرَةَ : اور آخرت ذٰلِكَ : یہ ہے هُوَ الْخُسْرَانُ : وہ گھاٹا الْمُبِيْنُ : کھلا
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی عبادت اس طرح کرتے ہیں جیسے کوئی شخص کنارہ پر ہو پھر اگر اس کو کوئی بھلائی پہنچ گئی تو اس کی وجہ سے مطمئن ہوگیا اور اگر کچھ آزمائش آگئی تو اپنے چہروں کے بل پلٹ گیا وہ دنیا اور آخرت کے اعتبار سے تباہ ہوگیا۔ یہ کھلی ہوئی تباہی ہے
طلب دنیا کے لیے اسلام قبول کرنے والوں کی تباہی صحیح بخاری ج 2 ؍ ص 649 میں حضرت ابن عباس ؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ بعض مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص مدینہ منورہ آیا اس کی بیوی کو حمل تھا اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگیا اور اس کے گھوڑوں کے بھی بچے پیدا ہوگئے تو اس پر وہ کہتا تھا کہ واقعی یہ دین (یعنی اسلام) اچھا دین ہے اور اگر بیوی کے ہاں لڑکا پیدا نہ ہوا اور گھوڑی نے بچے نہ دیئے تو کہتا تھا کہ یہ اچھا دین نہیں ہے اس قسم کے لوگوں کے بارے میں آیت بالا نازل ہوئی۔ صاحب روح المعانی نے بحوالہ تفسیر ابن مردویہ حضرت ابو سعید ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک یہودی نے اسلام قبول کرلیا اس کے بعد اس کی بینائی جاتی رہی اور مال بھی چلا گیا۔ نیز اولاد بھی ختم ہوگئی۔ اس نے اسے اسلام کی نحوست سمجھا وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میری بیعت توڑ دیجیے آپ نے فرمایا بیعت اسلام نہیں توڑی جاتی وہ کہنے لگا کہ اس دین میں مجھے خیر نہیں ملی میں اندھا ہوگیا میرا مال چلا گیا اور اولاد بھی مرگئی آپ نے فرمایا کہ اے یہودی ! لوگوں کو اسلام (بطور امتحان) پگھلا دیتا ہے جیسا کہ لوہے اور سونے اور چاندی کو آگ پگھلا کر کھوٹ اور میل دور کردیتی ہے اس پر آیت بالا نازل ہوئی اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ منافقین کے بارے میں آیت کریمہ کا نزول ہوا سبب نزول جو بھی کچھ ہو آیت کا مضمون عام ہے جو لوگ اسلام کو ظاہری طور پر دنیا کے منافع کے لیے قبول کرلیتے ہیں اور جن منافع کی امید تھی وہ منافع حاصل نہیں ہوتے تو اسلام سے پھرجاتے ہیں، حقیقت میں یہ لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور حق کے طالب بھی نہیں ہوتے، آخرت کی نجات کے لیے اسلام قبول نہیں کرتے، دنیاوی منافع کے لیے ظاہری طور پر کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا، ایسے لوگوں کی دنیا بھی تباہ ہوتی ہے اور آخرت بھی اور یہ کھلی ہوئی تباہی ہے جسے (الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ جو لوگ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور مصیبتوں کے لیے غیر اللہ کو پکارتے ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو اسلام کو چھوڑ کر غیر اللہ کی پرستش کرنے لگتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو پہلے ہی سے مشرک ہیں ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی کہ ان کا غیر اللہ کی عبادت کرنا اور مدد کے لیے پکارنا ان کے حق میں مفید نہیں ہے کیونکہ وہ ایسی چیز کو پکارتے ہیں جسے ضرر یا نفع پہنچانے کی ذرا بھی قدرت نہیں اور اسے اس بارے میں ذرا سا بھی اختیار نہیں (ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیْدُ ) (یہ طریقہ دور کی گمراہی ہے) (یَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّہٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہٖ ) (یہ مشرک ان کو پکارتا ہے جن کا ضرر نفع کی بنسبت زیادہ قریب ہے) کیونکہ یہ باطل معبود دنیا اور آخرت میں مدد تو کچھ کر ہی نہیں سکتے البتہ ان کی عبادت کا ضرر انہیں ضرور پہنچے گا دنیا میں گمراہ رہیں گے اور آخرت میں عذاب دوزخ میں داخل ہوں گے، ان کی عبادت کا یہ پھل ملے گا کہ جلنے کے عذاب میں ہمیشہ پڑے رہیں گے (لَبِءْسَ الْمَوْلٰی وَ لَبِءْسَ الْعَشِیْرُ ) یعنی یہ معبودان باطل برے دوست ہیں اور برے رفیق ہیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ جب قیامت کے دن کافر دیکھیں گے کہ کسی بھی معبود باطل سے نفع نہ پہنچا اور اس کی عبادت کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہونا پڑا تو بلند آواز سے پکار کر کہیں گے کہ اللہ کو چھوڑ کر ہم نے جس کی عبادت کی وہ تو برا دوست اور برا رفیق نکلا۔
Top