Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 19
هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ١٘ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ١ؕ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ
ھٰذٰنِ : یہ دو خَصْمٰنِ : دو فریق اخْتَصَمُوْا : وہ جھگرے فِيْ رَبِّهِمْ : اپنے رب (کے بارے) میں فَالَّذِيْنَ : پس وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا قُطِّعَتْ : قطع کیے گئے لَهُمْ : ان کے لیے ثِيَابٌ : کپڑے مِّنْ نَّارٍ : آگ کے يُصَبُّ : ڈالا جائے گا مِنْ فَوْقِ : اوپر رُءُوْسِهِمُ : ان کے سر (جمع) الْحَمِيْمُ : کھولتا ہوا پانی
یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا سو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے آگ کے کپڑے قطع کیے جائیں گے، ان کے سروں پر گرم پانی ڈال دیا جائے گا
دوزخ میں کافروں کی سزا، آگ کے کپڑے پہننا سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جانا، لوہے کے ہتھوڑوں سے پٹائی ہونا دو فریق یعنی مومنین اور کافرین نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا یعنی ایک جماعت وہ ہے جو اہل ایمان کی ہے اور ایک جماعت اہل کفر کی ہے دونوں جماعتوں میں اختلاف ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے آپس میں جنگ بھی ہے جھگڑے بھی ہیں اور قتل و قتال بھی۔ دونوں جماعتوں کی باہمی دشمنی کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے مومنین تو اللہ تعالیٰ کے لیے لڑتے ہیں مشرکین اور کافرین جو کسی درجہ میں اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور مالکیت کا اقرار کرتے ہیں وہ بھی اپنے خیال میں اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے لڑتے ہیں، کیونکہ وہ بھی اپنے دین کو جہالت اور سفاہت کی وجہ سے اللہ کا مقبول دین سمجھتے ہیں اس لیے دونوں جماعتوں کے لیے (اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ ) فرمایا، اہل مکہ جب جنگ بدر کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو انہوں نے یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ ہم دونوں جماعتوں میں سے جو حق پر ہو اس کو فتح نصیب فرما، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی۔ غزوہ بدر کے موقعہ پر ایک یہ واقعہ پیش آیا کہ قریش مکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے جو حضرات انصار آگے بڑھے تو قریشیوں نے کہا کہ ہم تم سے مقابلہ نہیں چاہتے ہم تو اپنے چچا کے لڑکوں سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اس پر مسلمانوں کی طرف سے حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن حارث میدان میں نکلے اور مشرکین مکہ کی طرف سے شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ سامنے آئے حضرت حمزہ ؓ نے شیبہ کو اور حضرت علی ؓ نے ولید بن عتبہ کو قتل کردیا حضرت عبیدہ کا عتبہ سے مقابلہ ہوا اور ہر ایک ایک دوسرے کی تلوار سے نیم جان ہوگیا پھر حضرت حمزہ اور حضرت علی نے عتبہ پر حملہ کیا اور اسے بالکل ہی جان سے مار دیا اور حضرت عبیدہ کو اٹھا کرلے آئے پھر جب مدینہ کو واپس ہو رہے تھے تو مقام صفراء میں حضرت عبیدہ کی وفات ہوگئی، حضرت علی فرماتے تھے کہ یہ آیت ہماری ان دونوں جماعتوں کے بارے میں نازل ہوئی (صحیح بخاری ج 2 ؍ 565 البدایۃ و النھایہ والتفصیل فی القسطلانی) سبب نزول خواہ انہیں دونوں جماعتوں کا مقابلہ ہو جن کا ذکر اوپر گزرا جیسا کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا لیکن آیت کا عموم یہ بتارہا ہے کہ اہل ایمان اور اہل کفر کی دونوں جماعتیں آپس میں اپنے اپنے دین و ملت کے لیے لڑ رہی ہیں، بدر کا مذکورہ واقعہ بھی اسی دینی دشمنی کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اہل کفر کی سزا اور اہل ایمان کی جزا بتائی، اہل کفر کے بارے میں فرمایا (فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَھُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ ) کہ ان کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے یعنی جس طرح کپڑے کا تھان بیونت کر کاٹا جاتا ہے تاکہ پہننے کے لیے سیا جائے اسی طرح کافروں کے لیے آگ کے کپڑے کاٹ کر تیار کیے جائیں گے، یہ تو ان کا لباس ہوگا اس کے ساتھ دوسری سزائیں بھی دی جائیں گی جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے سروں پر گرم پانی ڈالا جائے گا۔ اسی کو فرمایا (یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِھِمُ الْحَمِیْمُ ) مزید فرمایا (یُصْھَرُ بِہٖ مَا فِیْ بُطُوْنِھِمْ وَ الْجُلُوْدُ ) اس کی تفسیر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک کھولتا ہوا پانی ضرور دوزخیوں کے سروں پر ڈالا جائے گا جو ان کے پیٹوں میں پہنچ کر ان تمام چیزوں کو کاٹ دے گا جو ان کے پیٹوں کے اندر ہیں اور آخر میں قدموں سے نکل جائے گا اس کے بعد پھر دوزخی کو ویسا ہی کردیا جائے گا جیسا تھا پھر ارشاد فرمایا کہ آیت میں جو لفظ یُصْھَرُ ہے اس کا یہی مطلب ہے (رواہ الترمذی) پھر دوزخیوں کے ایک اور عذاب کا تذکرہ فرمایا (وَ لَھُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ ) (اور ان کے لیے لوہے کے گرز ہوں گے) (کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْھَا) (جب کبھی بھی وہ گھٹن کی وجہ سے اس میں سے نکلنے کا ارادہ کریں گے اس میں لوٹا دیئے جائیں گے) یعنی لوہے کے گرز مار کر انہیں اسی میں لوٹا دیا جائے گا (وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ) (اور ان سے کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھو) ۔ جن گرزوں سے مارنے کا ذکر ہے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دوزخ کا لوہے والا ایک گرز زمین پر رکھ دیا جائے اور اگر اس کو تمام جنات اور انسان مل کر اٹھانا چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے اور ایک روایت میں ہے کہ جہنم کا لوہے والا گرز اگر پہاڑ پر مار دیا جائے تو یقیناً وہ ریزہ ریزہ ہو کر راکھ ہوجائے۔ (راجع الترغیب و الترہیب ص 274 ج 4)
Top