Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 28
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ٘
لِّيَشْهَدُوْا : تاکہ وہ آموجود ہوں مَنَافِعَ : فائدوں کی جگہ لَهُمْ : اپنے وَيَذْكُرُوا : وہ یاد کریں (لیں) اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام فِيْٓ : میں اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ : جانے پہچانے (مقررہ) دن عَلٰي : پر مَا : جو رَزَقَهُمْ : ہم نے انہیں دیا مِّنْ : سے بَهِيْمَةِ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِنْهَا : اس سے وَاَطْعِمُوا : اور کھلاؤ الْبَآئِسَ : بدحال الْفَقِيْرَ : محتاج
تاکہ لوگ اپنے منافع کے لیے حاضر ہوں، اور ایام مقررہ میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہوں، تم ان میں سے کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنے اہل و عیال کو مکہ مکرمہ کی سر زمین میں آباد کیا تھا اس وقت یہ دعا کی تھی (فَاجْعَلْ اَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ ) کہ اے رب لوگوں کے دلوں کو ایسا بنا دے جو ان کی طرف مائل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آواز بھی پہنچا دی اور ان کی دعا بھی قبول فرمالی اس وقت سے لے کر آج تک کروڑوں انسان حج وعمرہ کرچکے ہیں ہر مسلمان کے دل میں یہ خواہش ہے کہ کعبہ شریف کو دیکھے اور اس کا طواف کرنے زمین کے دور دراز گوشوں سے مختلف راستوں سے طرح طرح کی سواریوں سے مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں اور حج وعمرہ کرتے ہیں اس میں بہت سے دینی و دنیاوی منافع ہیں مکہ مکرمہ کے رہنے والوں کو باہر کے آنے والوں سے طرح طرح سے منافع حاصل ہوتے ہیں اور آنے والے بھی دینی اور دنیاوی منافع سے مستفید ہوتے ہیں جسے (لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ ) میں بیان فرمایا ہے اس کی کچھ تفصیل سورة مائدہ کی آیت کریمہ (جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا للنَّاسِ وَالشَّھْرَ الْحَرَامَ وَالْھَدْیَ وَ الْقَلاآ ءِدَ ) کی تفسیر کے ذیل میں بیان کر آئے ہیں۔ (وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ) (اور تاکہ مقررہ ایام میں اس نعمت پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دی ہے یعنی چوپائے) یہاں کئی باتیں محتاج تشریح ہیں اول یہ کہ ایام معلومات سے کیا مراد ہے دوسرے یہ کہ اللہ کا نام ذکر کرنے سے کیا مراد ہے سوم یہ کہ (بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ) کیا ہیں ؟ چہارم یہ جانور وجو باً کس موقعہ پر اور استحباباً کس موقع پر ذبح کیے جائیں۔ (اَیَامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ ) (مقررہ ایام) سے کون سے دن مراد ہیں ؟ اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ (یعنی ذی الحجہ کے اولین دس دن) مراد ہیں ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کا خوب ذکر کریں، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بقرعید کے دس دن میں جس قدر نیک عمل اللہ کو محبوب ہے اس سے بڑھ کر کسی زمانے میں اس قدر محبوب نہیں (یعنی یہ دن فضیلت میں دیگر ایام سے بڑھے ہوئے ہیں) صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی ان دنوں کی عبادت سے افضل نہیں ہے آپ نے ارشاد فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی ان ایام کے اعمال سے افضل نہیں الایہ کہ کوئی شخص اپنی جان و مال کے کر نکلے اور ان میں سے کچھ بھی واپس کے کر نہ لوٹے (مشکوٰۃ المصابیح ص 128 بحوالہ بخاری) اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو بہت ہیں ان سب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے لیکن چونکہ بھیمۃ الانعام (چوپائے) دسویں دن سے ذبح ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور اس سے پہلے ان جانوروں کی تلاش ہوتی ہے خریداری ہوتی ہے کھلایا پلایا جاتا ہے۔ صحیح سالم ذبح کرنے کے لیے جانوروں کو تیار کیا جاتا ہے اس لیے یوں فرمایا کہ مقررہ ایام میں اس نعمت پر اللہ کا شکر کریں جو انہیں اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کی صورت میں عطا فرمائی ہے ان میں دینی فائدہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کی بار گاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اور دنیاوی منافع بھی ہیں ان کا گوشت بھی کھاتے ہیں دودھ بھی پیتے ہیں اور سوار بھی ہوتے ہیں۔ بعض حضرات نے ایام معلومات سے ایام النحر یعنی دس، گیا رہ، بارہ ذوالحجہ مراد لیے ہیں ان تینوں دنوں میں پورے عالم میں قربانیاں کی جاتی ہیں جو صاحب نصاب پر واجب ہوتی ہیں اور منیٰ میں بھی جانور ذبح کیے جاتے ہیں وہاں حج کی قربانیاں بھی ہوتی ہیں اور بہت سے لوگ وہ قربانیاں بھی کرتے ہیں جو مالک نصاب ہونے کی وجہ سے فرض ہوتی ہیں ایام منیٰ میں یوں بھی کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے سورة بقرہ میں فرمایا (وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ ) (اور چند دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو) اس سے منیٰ کے ایام میں ذکر کرنا مراد ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جمرات کو کنکریاں مارنا اور صفا مروہ کی سعی کرنا اللہ کا ذکر قائم کرنے کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔ (رواہ الترمذی) حج سراپا ذکر ہے تلبیہ ذکر ہے طواف بھی ذکر ہے سعی میں ذکر ہے عرفات میں ذکر ہے مزدلفہ میں ذکر ہے ایام منیٰ میں ذکر ہے رمی کرتے وقت ذکر ہے، قربانی کرتے وقت ذکر ہے، معالم التنزیل ج 1 ؍ 178 میں لکھا ہے کہ حضرت عمر اور عبداللہ بن عمر ؓ نمازوں میں منیٰ میں تکبیر کہتے تھے اور مجلس میں بھی اور بستر پر ہوتے ہوئے بھی اور راستوں میں بھی، صحیح مسلم ج 1 ؍ 360 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لَا تَصُوْمُوْا فِیْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ فَاِنَّھَا اَیَّامُ اَکْلٍ وَّ شُرْبٍ وَّ ذِکْرَ اللّٰہِ (ان دنوں میں روزہ نہ رکھو کیونکہ یہ کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں) ۔ (بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ) (چار پاؤں پر چلنے والے جانور) ان سے وہ جانور مراد ہیں جو حج کے دنوں میں منیٰ میں اور پورے عالم میں اضحیہ (قربانی واجبہ) کی ادائیگی کے لیے ذبح کیے جاتے ہیں ہر جانور اور ہر چوپائے کی قربانی جائز نہیں ہوتی اس کے لیے اونٹ، اونٹنی، گائے، بیل، بکرا، بکری، دنبہ، بھیڑ، بھیڑا ہی متعین ہیں اور چونکہ بھینس بھی گائے کی ایک جنس ہے اس لیے اس کی بھی قربانی درست ہے ان جانوروں کی عمریں بھی مقرر ہیں اور یہ بات بھی لازم ہے کہ جانور کے جسم میں عیب نہ ہو۔ ناک، کان، ہاتھ، پاؤں ٹھیک ہوں البتہ تھوڑا سا کوئی نقص ہو تو اس کے ذبح کرنے کی گنجائش ہے (جس کے مسائل کتب فقہ میں مذکور ہیں) اونٹ اور اونٹنی کی قربانی کے لیے خواہ حج کی قربانی ہو خواہ کوئی صاحب نصاب اپنے وطن میں قربانی کرنا چاہے تو پانچ سال کا اونٹ یا اونٹنی ہونا لازم ہے۔ گائے، بیل، بھینس دو سال کا ہونا اور بکرا بکری، بھیڑ بھیڑا، اور دنبہ دنبی میں ایک سال کی عمر ہونا شرط ہے گائے اور بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ اونٹنی میں سات حصے ہوسکتے ہیں۔ حج میں جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں قرآن مجید میں اسی کا نام ھدی رکھا ہے، جس شخص نے تمتع یا قرآن کیا ہو اس پر قربانی کرنا واجب ہے یہ قربانی دس گیارہ بارہ ذی الحجہ کو کسی دن کردی جائے بارہویں تاریخ کا سورج چھپنے کے بعد ذبح کیا تو ایک قربانی مزید واجب ہوگی جسے دم جنایت کہتے ہیں، قرآن اور تمتع کی ھدی ذبح کرنے والے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس سے پہلے حلق یا قصرنہ کرے، اس کی خلاف ورزی کرنے سے دم جنایت واجب ہوگا جس نے حج افراد کیا ہو اس کے لیے ھدی کا جانور ذبح کرنا مستحب ہے۔ (فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآءِسَ الْفَقِیْرَ ) (سو ان میں سے کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ) حج میں جو قربانیاں کی جاتی ہیں ان میں ایک تمتع اور قرآن کی قربانی ہے دوسرے جنایت ہے تیسرے دم احصار ہے اور چوتھے نفلی قربانی ہے ان میں سے جو دم جنایت اور دم احصار ہے اس میں سے صرف فقراء اور مساکین ہی کھا سکتے ہیں نہ قربانی والا خود کھا سکتا ہے نہ اپنے اہل و عیال کو کھلا سکتا ہے اور نہ کسی صاحب نصاب کو اس میں سے دینا جائز ہے اور ضروری نہیں ہے کہ یہ گوشت حرم کے مساکین ہی کو دیا جائے البتہ حرم کے فقراء کو دینا افضل ہے تمتع اور قرآن کی قربانی اور حج کی نفلی قربانی سے خود کھانا، اہل و عیال کو کھلانا، دوست احباب کو دینا یہ سب نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ مستحب ہے یہی حکم اس قربانی کا ہے جو صاحب نصاب ساری دنیا میں کرتے ہیں جس ھدی کا گوشت مالک کو کھانا جائز ہے اس میں تہائی گوشت فقیروں کو دینا مستحب ہے احکام حج میں کسی واجب کے چھوٹ جانے یا بعض واجبات میں تقدیم و تاخیر کرنے کی وجہ سے جو قربانی ہوتی ہے اسے دم جنایت کہا جاتا ہے۔ جو شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوگیا پھر کسی صاحب اقتدار نے آگے بڑھنے سے روک دیا کسی دشمن نے نہ جانے دیا یا ایسا سخت مریض ہوگیا کہ سفر کے قابل نہ رہا اس کو احصار کہا جاتا ہے اگر ایسا واقعہ پیش آجائے تو حدود حرم میں صحیح سالم ایک سالہ بکرا یا بکری ذبح کراکر احرام سے نکل جائے اسے دم احصار کہتے ہیں۔ اگرچہ مجبوری کی وجہ سے دم دیکر احرام سے نکل جائے گا لیکن حج یا عمرہ کی قضا پھر بھی واجب رہے گی تفصیلی مسائل حج کی کتابوں میں لکھے ہیں۔ فائدہ : دم احصار دم تمتع اور دم قرآن اور دم جنایات ان سب کا حدود حرم میں ہی ذبح کرنا واجب ہے دم تمتع اور دم قرآن منیٰ میں ہونا افضل ہے۔
Top