Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ : پھر لْيَقْضُوْا : چاہیے کہ دور کریں تَفَثَهُمْ : اپنا میل کچیل وَلْيُوْفُوْا : اور پوری کریں نُذُوْرَهُمْ : اپنی نذریں وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور طواف کریں بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : قدیم گھر
پھر اپنے میل کچیل کو دور کریں اور اپنی نذروں کو پوری کریں اور البیت العتیق کا طواف کریں
(ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ ) (پھر اپنے میل کچیل کو دور کریں) دس تاریخ کی صبح کو مزدلفہ سے آتے ہیں اس روز منیٰ میں قربانیاں کی جاتی ہیں جس شخص نے صرف حج افراد کیا ہو وہ مزدلفہ سے آکر پہلے جمرہ عقبہ کی رمی کرے پھر حلق کرائے پھر سر منڈوائے اور اگر حج کی قربانی بھی کرنی ہو (جو اس کے لیے مستحب ہے) تو افضل یہ ہے کہ رمی کرنے کے بعد پہلے قربانی کرے پھر حلق کرائے اور جس شخص نے تمتع یا قرآن کیا ہو وہ منیٰ میں اولاً جمرہ عقبہ کی رمی کرے اس کے بعد قربانی کرے اس کے بعد حلق کرنے کے بعد ناخن وغیرہ کاٹے جائیں اسی کو فرمایا کہ پھر میل کچیل کو دور کرلیں، بالوں کو قصر کرنے یعنی کاٹنے سے بھی احرام سے نکل جاتا ہے لیکن حلق کرنا افضل ہے اور عورت کے لیے قصر ہی متعین ہے کیونکہ اس کو سر منڈانا منع ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حلق کرانے والوں کے لیے تین بار اور قصر کرنے والوں کے لیے ایک بار رحمت کی دعا دی پورے سر کا حلق یا قصر کیا جائے اگر سر نہ منڈائے اور قصر یعنی بال کٹانے کو اختیار کرے تو اس میں بھی پورے سر کے بالوں کو کاٹ دے اور یہ کاٹ دینا اس وقت معتبر ہے جبکہ بال بڑے بڑے ہوں اور بقدر ایک پورے کے پورے سر کے یا کم از کم چوتھائی سر کے بال کٹ جائیں اگر اتنے بڑے بال نہ ہوں جو ایک پورے کی لمبائی کے بقدر کٹ سکیں تو پھر حلق ہی متعین ہوگا۔ حج کے احرام سے نکلنے والے کے لیے افضل ہے کہ منیٰ میں حلق یا قصر کرے اگرچہ حدود حرم میں کسی بھی جگہ حلق یا قصر کرنا درست ہے اور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کچھ سر مونڈ دینا اور کچھ چھوڑ دینا منع ہے۔ تنبیہہ : لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ حج یا عمرہ کے احرام سے نکلنے کے لیے دو چار جگہ سے چند بال کٹوا لیتے ہیں یہ طریقہ آنحضرت ﷺ سے اور آپ کے صحابہ سے ثابت نہیں ہے اس طرح کرنے سے احرام سے نہیں نکلتا پورے سر کا حلق کرے یا کم از کم چوتھائی سر سے ایک پورے کے برابر لمبائی میں بال کاٹ دے، اگر ایسا نہ کیا تو برابر احرام ہی میں رہے گا۔ اور چونکہ ایسے شخص کا احرام بدستور باقی رہے گا اس لیے سلے ہوئے کپڑے پہن لینا یا خوشبو لگانا یا ناخن کاٹنا یا سر کے علاوہ کسی اور جگہ کے بال مونڈنا یا کاٹنا احرام کی جنایات میں شمار ہوگا۔ (وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ ) (اور اپنی نذروں کو پوری کریں) اس میں نذریں پوری کرنے کا حکم فرمایا ہے جس کسی عبادت کی نذر مان لی جائے اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے نماز کی، روزے کی، حج کی، عمرہ کی، صدقہ کرنے کی، قربانی کی، جو بھی نذر مان لے اسے پوری کرے۔ سورة (ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ ) میں ابرار یعنی نیک بندوں کی جو تعریف فرمائی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ (یُوْفُوْنَ بالنَّدْرٍ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا) (وہ نذروں کو پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن کی سختی عام ہوگی) جو لوگ حج کو جاتے ہیں ان میں سے بعض کا تو حج وہی ہوتا ہے جو حج کی نذر کر کے واجب کرلیا تھا اور بعض لوگ عمرے کرنے کی نذریں مان لیتے ہیں بعض لوگ منیٰ میں یا مکہ میں قربانی کرنے کی نذر مانتے ہیں اس لیے احکام حج کے ذیل میں ایفائے نذر یعنی نذر پوری کرنے کا بھی حکم فرما دیا۔ (وَ لْیَطَّوَّفُوْا بالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ) (اور بیت عتیق کا طواف کریں) بیت عتیق کعبہ شریف کے ناموں میں سے ایک نام ہے سنن ترمذی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے آنحضرت سرور عالم ﷺ کا ارشادنقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف کا نام عتیق یعنی آزاد اس لیے رکھا ہے کہ اسے بڑے بڑے سر کشوں سے محفوظ فرمایا ہے کوئی جابر اور ظالم اس پر غالب نہیں ہوسکتا یہ تو حدیث مرفوع ہے نیز حضرت ابن عباس اور حضرت مجاہد سے بھی ایسا ہی منقول ہے، حج میں تین فرائض ہیں اول حج کا احرام باندھنا دوسرے حج کا احرام باندھ کر ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو زوال کے بعد سے لے کر صبح صادق سے پہلے پہلے کسی بھی وقت عرفات میں موجود ہونا، جسے وقوف عرفات کہا جاتا ہے، تیسرے وقوف عرفات کے بعد طواف کرنا جسے طواف افاضہ، طواف زیارۃ، طواف رکن، اور طواف فرض بھی کہا جاتا ہے، مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں طواف زیارت ادا کرنے کا حکم ہے کیونکہ میل کچیل دور کرنے کا حکم دینے کے بعد طواف کرنے کا حکم دیا ہے یہ طواف ترتیب مسنون کے مطابق دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی اور پھر قربانی پھر حلق کے بعد کرنا چاہئے رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا لیکن اگر کوئی شخص مزدلفہ سے سیدھا مکہ مکرمہ چلا جائے اور پہلے طواف زیارت کرلے پھر منیٰ میں آکر رمی اور ذبح اور حلق کرے تو یہ بھی جائز ہے یعنی اس سے کوئی دم واجب نہیں ہوتا اگرچہ افضلیت کے خلاف ہے، یہ طواف دس گیارہ بارہ ذی الحجہ تینوں تاریخوں میں سے کسی بھی تاریخ میں رات میں یا دن میں ادا کرلیا جائے۔ اگر کسی مجبوری کے بغیر بارہ تاریخ کا سورج غروب ہونے کے بعد کیا جو مجبوری شرعاً معتبر ہے تو دم واجب ہوگا لیکن ادا پھر بھی ہوجائے گا۔ طواف زیارت چھوڑنے یا چھوٹنے کی تلافی کسی بھی بدل یا دم سے نہیں ہوسکتی، ہاں اگر کوئی شخص وقوف عرفات کے بعد مرگیا اور مرنے سے پہلے اس نے وصیت کردی کہ میرا حج پورا کردیا جائے تو طواف زیارت کے بدلے پورا ایک بدنہ یعنی ایک سالم اونٹ یا ایک سالم گائے ذبح کر کے مسکینوں کو دے دیں۔ حج میں ایک طواف مسنون ہے اور وہ طواف قدوم ہے جو میقات کے باہر سے آنے والوں کے لیے سنت ہے اور ایک طواف واجب ہے وہ طواف و داع ہے جو طواف زیارت کرنے کے بعد مکہ معظمہ سے روانگی کے وقت کیا جاتا ہے یہ طواف ان لوگوں پر واجب ہے جو حرم اور حل سے باہر رہتے ہیں، ان طوافوں کے علاوہ جتنے چاہے نفلی طواف کرے، البتہ اگر کسی نے طواف کی نذر مان لی تھی تو نذر پورا کرنا واجب ہوجائے گا، ہر طواف میں سات ہی چکر ہیں ہر چکر حجرا سود سے شروع کرے اور اسی پر ختم کرے، تفصیلی مسائل حج کی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں۔ فائدہ : طواف زیارت اگر بارہ تاریخ کے اندر اندر ادا نہیں کیا تو زندگی میں جب کبھی بھی ادا کرے گا ادا ہوجائے گا۔ جب تک طواف نہ کرے گا بیوی سے میل ملاپ حرام رہے گا اگر کوئی ایسی حرکت کرلی جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے تو جنایت شمار ہوگی اور بعض صورتوں میں بکری اور بعض صورتوں میں بدنہ واجب ہوگا اگر حلق کرنے کے بعد طواف کرنے سے پہلے ایک ہی مجلس میں متعدد مرتبہ جماع کیا تو ایک ہی دم واجب ہوگا اور اگر متعدد مجلسوں میں جماع کیا تو ہر مجلس کے جماع پر علیحدہ علیحدہ دم ہے۔
Top