Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 3
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍۙ
وَ : اور مِنَ النَّاسِ : کچھ لوگ جو مَنْ : جو يُّجَادِلُ : جھگڑا کرتے ہیں فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں بِغَيْرِ عِلْمٍ : بےجانے بوجھے وَّيَتَّبِعُ : اور پیروی کرتے ہیں كُلَّ شَيْطٰنٍ : ہر شیطان مَّرِيْدٍ : سرکش
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو بغیر علم کے اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں اور ہر سر کش شیطان کا اتباع کرتے ہیں
اس کے بعد فرمایا (وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ ) ۔ (الایتین) مفسر ابن کثیر نے سبب نزول بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ہمیں بتائیے کہ آپ کا رب سونے کا ہے یا چاندی کا یا تانبے کا۔ اس پر آسمان میں ایک گرج پیدا ہوئی اور اس شخص کی کھوپڑی گر کر سامنے آگئی۔ اور حضرت مجاہد سے نقل کیا ہے کہ ایک یہودی نے اس طرح کا سوال کیا جس پر بجلی آئی اور اسے ہلاک کردیا۔ اس قسم کے سوال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو بےعلمی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں اور سر کش شیطان کا اتباع کرتے ہیں۔ شیطان جو کچھ انہیں سمجھا دیتا ہے اسے مان لیتے ہیں اور شیطان جو سوالات سمجھاتا ہے ان سوالات کو آگے بڑھا دیتے ہیں۔ سوال کرنے والوں نے باطل معبودوں یعنی بتوں کو دیکھا تھا جو مختلف چیزوں سے بنائے جاتے ہیں۔ انہیں پر قیاس کر کے یہ سوال کر بیٹھے کہ تمہارا رب کس چیز کا بنا ہوا ہے۔ جہالت کے ماروں نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ یہ باطل معبود جو خود تراشے ہیں اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں ان پر خالق کائنات جل مجدہ کو کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے۔ شیطان نے جب انہیں ایسا سمجھایا تو رسول اللہ ﷺ سے بےجا سوال کر بیٹھے۔ یہ لوگ شیطان سے دوستی کرتے ہیں اور اس کی بات مانتے ہیں اور شیطان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ طے کردیا گیا کہ جو بھی کوئی اس سے دوستی کرے گا اس کی بات مانے گا، وہ اس دنیا میں اسے گمراہ کر دے گا اور آخرت میں اسے دہکتی ہوئی آگ کے عذاب میں داخل کرانے کا ذریعہ بن جائے گا۔ شیطان خود بھی گمراہ ہے اسے خود بھی درزخ میں جانا ہے اور جو اس کا دوست بنے گا اسے بھی گمراہ کرے گا۔ گمراہ کی دوستی سے گمراہی اور گناہ کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔ جو اس کا دوست بنے گا اسے بھی گمراہ کرے گا اور اس کے دوزخ میں جانے کا سبب بنے گا۔
Top