Anwar-ul-Bayan - Al-Muminoon : 101
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب نُفِخَ : پھونکا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں فَلَآ اَنْسَابَ : تو نہ رشتے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَئِذٍ : اس دن وَّلَا يَتَسَآءَلُوْنَ : اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے
سو جب صور پھونکا جائے گا تو اس روز ان میں باہمی رشتے نہ رہیں گے وہ نہ آپس میں ایک دوسرے کو پوچھیں گے
پھر فرمایا (فَاِِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلاَ اَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَءِذٍ وَّلاَ یَتَسَاءَ لُوْنَ ) (سو جب صور پھونکا جائے گا تو ان کے درمیان اس دن نسب باقی نہ رہیں گے اور نہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں گے) اس میں یہ بتایا کہ برزخ کا زمانہ گزرنے کے بعد جب قیامت قائم ہوگی تو لوگوں کے آپس کے جو انساب یعنی رشتہ داریوں کے تعلقات تھے وہ اسی وقت ختم ہوجائیں گے یعنی کوئی کسی کو نہیں پوچھے گا بلکہ آپس میں ایک دوسرے سے دور ہونے اور بھاگنے کی راہ اختیار کریں گے۔ سورة عبس میں فرمایا ہے (یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَاَبِیہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ ) (جس روز آدمی اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگے گا ان میں ہر شخص کو ایسا مشغلہ ہوگا جو اس کو اور کسی کی طرف متوجہ نہ ہونے دیگا) ۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے منقول ہے کہ جب دوسری بار صور پھونک دیا جائے گا تو مرد اور عورت جو بھی ہو اولین و آخرین سب کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اور ایک پکارنے والا پکارے گا کہ یہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے جس کسی کا اس پر حق ہو اپنا حق لینے کے لیے آجائے یہ اعلان سن کر انسان کا یہ حال ہوگا کہ وہ اس بات سے خوش ہوگا کہ اچھا ہے کہ میرے باپ پر یا میری اولاد پر یا میری بیوی پر یا میرے بھائی پر میرا کچھ حق نکل آئے تو وصول کرلوں (وہاں نیکی برائیوں کے ذریعہ لین دین ہوگا) اس کے بعد حضرت ابن مسعود نے آیت کریم (فَلَاْ اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ ) کی تلاوت فرمائی۔ اور حضرت ابن مسعود سے (فَلَاْ اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ ) کی ایک تفسیر یوں نقل کی گئی ہے کہ اس دن آپس میں نسب پر فخر نہ کریں گے جیسا کہ دنیا میں کرتے ہیں اور نہ آپس میں یوں سوال کریں گے کہ تم ہمارے رشتہ دار تھے بحق رشتہ داری یا بحق اللہ کچھ مدد کرو۔ یہ اشکال ہوتا ہے کہ یہاں (وَ لاَ یَتَسَآءَ لُوْنَ ) فرمایا اور دوسری آیت میں (وَ اَقْبَلَ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَتَسَآءَ لُوْنَ ) فرمایا ہے اس میں بظاہر تعارض سا ہے اگر (وَ لاَ یَتَسَآءَ لُوْنَ ) یہ تفسیر کی جائے کہ آپس میں ایک دوسرے سے مدد اور صلہ رحمی کا سوال نہیں کریں گے جو نسب کی بنیاد پر ہو اور مدد کے لیے کوئی کسی کا نہ پوچھے گا تو کوئی تعارض نہیں رہتا کیونکہ دوسری آیت میں جس سوال کا ذکر ہے وہ سوال رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں ہے، اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے احوال مختلف ہونگے تو آپس میں کچھ پوچھ پاچھ کرلیں گے۔ (معالم التنزیل بذیادتہ ج 3 ص 318۔ 317)
Top