Anwar-ul-Bayan - An-Noor : 6
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویاں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ ہوں لَّهُمْ : ان کے شُهَدَآءُ : گواہ اِلَّآ : سوا اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں (خود) فَشَهَادَةُ : پس گواہی اَحَدِهِمْ : ان میں سے ایک اَرْبَعُ : چار شَهٰدٰتٍ : گواہیاں بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ لَمِنَ : کہ وہ بیشک سے الصّٰدِقِيْنَ : سچ بولنے والے
اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگائیں اور ان کے پاس ان کی اپنی جانوں کے علاوہ گواہ نہ ہوں تو یہ تہمت لگانے والا اللہ کی قسم کھا کر چار مرتبہ یوں کہے کہ بلاشبہ وہ سچوں میں سے ہے
جو لوگ اپنی بیویوں کی تہمت لگائیں ان کے لیے لعان کا حکم کوئی مرد عورت کو زنا کی تہمت لگا دے اور اپنی بات کے سچا ثابت کرنے کے لیے چار گواہ پیش نہ کرسکے تو اس تہمت لگانے والے پر حد قذف جاری ہوگی یعنی اسے اسی کوڑے لگائے جائیں گے (جس کی تفصیل اوپر گزری) لیکن اگر کوئی مرد اپنی بیوی کے بارے میں یوں کہے کہ اس نے زنا کیا ہے اور عورت اس کو جھٹلائے اور شوہر کے پاس چار گواہ نہیں ہیں تو گواہ نہ ہونے کی وجہ سے شوہر کو حدقذف نہیں لگائی جائے گی بلکہ امیر المومنین یا قاضی شوہر سے کہے گا کہ تو لعان کر یا یہ اقرار کر کہ تو نے جھوٹی تہمت لگائی ہے اگر وہ دونوں میں سے کسی بات پر راضی نہ ہو تو قاضی اسے بند کر دے گا۔ یہاں تک کہ لعان کرنے پر راضی ہوجائے یا یوں کہے کہ میں نے جھوٹی تہمت لگائی ہے اگر اس دوسری بات کا اقرار کرے تو پھر اسے حد قذف لگائی جائے گی، اگر وہ اپنے نفس کو نہیں جھٹلاتا اور اسے برابر اس بات پر اصرار ہے کہ میری بیوی نے زنا کیا ہے تو قاضی دونوں کے درمیان لعان کرنے کا حکم دے گا۔ لعان کا طریقہ : لعان کا طریقہ یہ ہے کہ مرد کھڑا ہوگا اور چار مرتبہ یوں کہے گا اشھد باللّٰہ انی لمن الصادقین فما رمیت ھذا من الزنا (میں اللہ کو گواہ بنا کر قسم کھاتا ہوں کہ میں اس عورت کے بارے میں جو کہہ رہا ہوں کہ اس نے زنا کیا ہے میں اس بات میں سچا ہوں) یا پھر پانچویں مرتبہ یوں کہے لعنت اللہ علیہ ان کان من الکذبین فیما رمی ھذا من الزنا (اس عورت کے بارے میں جو میں نے کہا ہے کہ اس نے زنا کیا اس بارے میں اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو) پانچویں مرتبہ جب لفظ ھذہ (اس عورت) کے الفاظ ادا کرے تو ہر مرتبہ عورت کی طرف اشارہ کرے جب مرد پانچوں مرتبہ مذکورہ الفاظ کہہ چکے تو اس کے بعد عورت چار مرتبہ کہے اشھد باللہ انہ لمن الکاذبین فیھا رمانی بہ من الزنا (میں اللہ کو گواہ بنا کر قسم کھاتی ہوں کہ اس مرد نے جو مجھے زنا کی تہمت لگائی ہے اس بارے میں یہ جھوٹا ہے) پھر پانچوں مرتبہ یوں کہے ان غضب اللہ علیھا ان کان من الصادقین فیھا رمانی بہ من الزنا (مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو اگر یہ اپنی اس بات میں سچا ہو جو اس نے میری طرف زنا کی نسبت کی ہے) ۔ جب دونوں لعان کرلیں تو اب قاضی ان دونوں کے درمیان تفریق کر دے گا۔ اور یہ تفریق کرنا طلاق بائن کے حکم میں ہوگا۔ اور اگر لعان اس لیے تھا کہ نومولودہ بچہ کے بارے میں شوہر نے یوں کہا تھا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے تو لعان کے بعد تفریق کرنے کے ساتھ ساتھ قاضی اس بچہ کا نسب اس مرد سے ختم کر دے گا اور یہ حکم نافذ کر دے گا کہ یہ بچہ اپنی ماں کا ہے اس عورت کے شوہر کا نہیں ہے۔ لعان کرنے کے بعد اگر شوہر اپنی تکذیب کر دے یعنی یوں کہہ دے کہ میں نے جھوٹی تہمت لگائی تھی تو پھر قاضی اسے حد قذف یعنی اسی کوڑے لگا دے گا۔ حدیث کی کتابوں میں عویمر عجلانی اور ھلال بن امیہ ؓ کے اپنی اپنی بیوی سے لعان کرنے کا تذکرہ ملتا ہے صحیح بخاری ص 799 وص 1800 صحیح بخاری کتاب التفسیر ص 695 میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ھلال بن امیہ نے جو اپنی بیوی کے بارے میں یوں کہا کہ اس نے فلاں شخص سے زنا کیا ہے تو آیات لعان (وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ ) (الایات) نازل ہوئیں۔ لعان کی کچھ شرائط ہیں جو فقہ کی کتابوں میں لکھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ بیوی نا بالغہ نہ ہو دیوانی نہ ہو اور شوہر نا بالغ اور دیوانہ نہ ہو اور اگر گونگا شوہر اشاروں سے اپنی بیوی کو تہمت لگا دے تو اس کی وجہ سے قاضی لعان کا حکم نہیں دے گا وفیہ شرائط آخر۔
Top