Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 15
قُلْ اَذٰلِكَ خَیْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً وَّ مَصِیْرًا
قُلْ : فرما دیں اَذٰلِكَ : کیا یہ خَيْرٌ : بہتر اَمْ : یا جَنَّةُ الْخُلْدِ : ہمیشگی کے باغ الَّتِيْ : جو۔ جس وُعِدَ : وعدہ کیا گیا الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار (جمع) كَانَتْ : وہ ہے لَهُمْ : ان کے لیے جَزَآءً : جزا (بدلہ) وَّمَصِيْرًا : لوٹ کر جانے کی جگہ
آپ فرما دیجیے کہ یہ بہتر ہے یا ہمیشہ کے رہنے والی جنت بہتر ہے جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ جنت ان کے لیے بطور بدلہ عطا کی جائے گی اور ان کا ٹھکانہ ہوگی،
(قُلْ اَذٰلِکَ خَیْرٌ) (الآیۃ) یعنی آپ فرمادیجیے کہ یہ دوزخ اور اس کا عذاب بہتر ہے یا وہ جنت بہتر ہے جو ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ جنت متقیوں کو ان کے اعمال کی جزاء کے طور پر دی جائے گی اور یہ لوگ انجام کے طور پر اس میں جائیں گے وہی ان کا مقام ہوگا اور اسی میں رہیں گے صرف رہنا ہی نہیں ہے بلکہ اس میں بڑی بڑی نعمتوں سے سر فراز کیے جائیں گے وہاں جو چاہیں گے وہ عطا کیا جائے گا وہاں نفسوں کی خواہش کے مطابق زندگی گزاریں گے اور زندگی بھی ابدی اور دائمی ہوگی اس کے بر عکس کسی دوزخی کی کوئی بھی خواہش پوری نہیں کی جائے گی سورة سبا میں فرمایا۔ (وَ حِیْلَ بَیْنَھُمْ وَ بَیْنَ مَا یَشْتَھُوْنَ کَمَا فُعِلَ بِاَشْیَاعِھِمْ مِّنْ قَبْلُ اِنَّھُمْ کَانُوْا فِیْ شَکٍّ مُّرِیْبٍ ) (اور ان کے اور ان کی خواہشوں کے درمیان آڑ کردی جائے گی جیسا کہ اس سے پہلے ان کے ہم مشرب کافروں کے ساتھ کیا گیا بلاشبہ وہ بڑے شک میں تھے جس نے ان کو تردد میں ڈال رکھا تھا) مزید فرمایا (کَانَ عَلٰی رَبِّکَ وَعْدًا مَّسْءُوْلاً ) یہ جو جنت کی نعمتیں اہل تقویٰ کو دی جائیں گی اللہ تعالیٰ نے ان سے اس کا وعدہ فرمایا ہے اور اس کا پورا کرنا اپنے ذمہ کرلیا ہے اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے رہیں کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں اپنے انعام سے نوازے۔ جیسا کہ سورة آل عمران میں (اُولُو الْاَلْبَابِ ) (عقلمندوں) کی دعاء نقل فرمائی ہے۔ (رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَاعَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ) (اے ہمارے رب اپنے رسولوں کی زبانی جو آپ نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اس کے مطابق ہمیں عطا فرما دیجیے اور قیامت کے دن ہمیں عطا فرما دیجیے اور قیامت کے دن ہمیں رسوانہ فرمائیے بیشک آپ وعدہ خلاف نہیں فرماتے) ۔ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا ہوگا۔ اس کے پورا ہونے کی دعا کرنا شک کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی حاجت کا اظہار کرنے اور دعا کی فضیلت ملنے اور مناجات کی لذت حاصل کرنے کے لیے ہے۔
Top