Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 70
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
اِلَّا : سوائے مَنْ تَابَ : جس نے توبہ کی وَاٰمَنَ : اور وہ ایمان لایا وَعَمِلَ : اور عمل کیے اس نے عَمَلًا صَالِحًا : نیک عمل فَاُولٰٓئِكَ : پس یہ لوگ يُبَدِّلُ اللّٰهُ : اللہ بدل دے گا سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں حَسَنٰتٍ : بھلائیوں سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
سوائے اس کے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیے سو یہ وہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیگا، اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے
(اِِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) (سوائے اس کے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیے سو یہ وہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے) اس استثناء سے معلوم ہوا کہ کافر اور مشرک کے لیے ہر وقت توبہ کا دروازہ کھلا ہے جو بھی کوئی کافر کفر سے توبہ کرے اس کی سابقہ تمام نافرمانیاں معاف فرما دی جائیں گی، حضرت عمرو بن عاص ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں آپ سے بیعت ہونا چاہتا ہوں اور شرط یہ ہے کہ میری مغفرت ہوجائے آپ نے فرمایا اما علمت یا عمرو ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ (اے عمرو کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلام ان سب چیزوں کو ختم کردیتا ہے جو اس سے پہلے تھیں) ۔ (مسلم ج 1 ص 76) یہ جو فرمایا کہ اللہ ان کی سیئات کو حسنات سے بدل دے گا اس کے بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں جنہیں صاحب روح المعانی نے ذکر کیا ہے حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرمان ہوگا کہ اس کے سامنے اس کے صغیرہ گناہ پیش کرو اور بڑے گناہوں کو علیحدہ رکھ دو لہٰذا اس سے کہا جائے کہ تو نے فلاں فلاں دن اور فلاں فلاں دن ایسے ایسے کام کیے ہیں وہ اقرار کرے گا منکر نہ ہوگا۔ اس بات سے ڈرتا ہوگا کہ بڑے گناہ باقی ہیں وہ سامنے لائے گئے تو کیا ہوگا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ اس کے ہر گناہ کے بدلہ اس کو ایک ایک نیکی دے دو یہ سن کر (خوشی کی وجہ سے اور یہ جان کر کہ ہر گناہ پر ایک نیکی مل رہی ہے) یوں کہے گا ابھی میرے گناہ اور باقی ہیں جن کو میں نہیں دیکھ رہا ہوں (وہ گناہ بھی پیش کیے جائیں اور ان کے بدلہ میں بھی ایک ایک نیکی دی جائے) یہ بات بیان کرتے وقت رسول اللہ ﷺ کو ایسی ہنسی آئی کہ آپ کی مبارک ڈاڑھیں نظر آگئیں۔ (مشکوۃ المصابیح ص 492 از مسلم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیئات کو حسنات سے بدلنے کا یہ مطلب ہے کہ گناہوں کو معاف کردیا جائے اور ہر گناہ کی جگہ ایک ایک نیکی کا ثواب دیدیا جائے یہ مطلب نہیں کہ گناہوں کو نیکیاں بنا دیا جائے گا۔ کیونکہ برائی کبھی اچھائی نہیں بن سکتی اور بعض حضرات نے تبدیل السیئات بالحسنات کا یہ مطلب لیا ہے کہ گزشتہ معاصی توبہ کے ذریعہ ختم کردیئے جائیں گے اور ان کی جگہ بعد میں آنے والی طاعات لکھ دی جائیں گی کما یشیر الیہ کلام کثیر من السلف (ذکرہ صاحب الروح)
Top