Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 136
قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَوَ عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَۙ
قَالُوْا : وہ بولے سَوَآءٌ : برابر عَلَيْنَآ : ہم پر اَوَعَظْتَ : خواہ تم نصیحت کرو اَمْ لَمْ تَكُنْ : یا نہ ہو تم مِّنَ : سے الْوٰعِظِيْنَ : نصیحت کرنے والے
وہ لوگ کہنے لگے کہ ہمارے نزدیک تو دونوں باتیں برابر ہیں تم نصیحت کرو یا نصیحت کرنے والوں میں سے نہ بنو،
(قَالُوْا سَوَاءٌ عَلَیْنَا) (الآیۃ) ان لوگوں نے جواب میں کہا کہ تمہاری و اعظانہ باتوں سے ہم متاثر ہونے والے نہیں تم ہمیں نصیحت کرو یا نہ کرو بہر حال ہم اپنی جگہ پر اٹل ہیں ہمیں بات ماننا نہیں ہے، اور یہ جو تم کہتے ہو کہ اللہ سے ڈرو اور قیامت کو مانو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں وہ بھی ایسی باتیں کہتے آئے ہیں اب تک قیامت آئی نہیں اور یہ جو تم عذاب والی بات کہتے ہو ہم اسے بھی نہیں مانتے ہم پر کوئی عذاب آنے والا نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ ان لوگوں نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو جھٹلا دیا اللہ پاک نے انہیں سخت آندھی کے ذریعہ ہلاک کردیا جس کا ذکر سورة حم سجدہ (ع 2) اور سورة الحاقہ (ع 1) سورة ذاریات (ع 2) سورة قمر (ع 1) اور سورة احقاف میں فرمایا ہے سات رات اور آٹھ دن لگا تار ٹھنڈی تیز ہوا چلتی رہی جس سے سب ہلاک ہوگئے مفصل واقعہ ہم سورة اعراف (ع 9) کی تفسیر میں بیان کر آئے ہیں۔
Top