Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 83
رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ
رَبِّ : اے میرے رب هَبْ لِيْ : مجھے عطا کر حُكْمًا : حکم۔ حکمت وَّاَلْحِقْنِيْ : اور مجھے ملا دے بِالصّٰلِحِيْنَ : نیک بندوں کے ساتھ
اے میرے رب مجھے حکم عطا فرمائیے اور مجھے نیک لوگوں میں شامل فرمائیے
اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی چند دعاؤں کا تذکرہ فرمایا (رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا) (اے میرے رب مجھے حکم عطا فرما) لفظ حکم کی تفصیل میں کئی قول ہیں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے حکمت مراد ہے یعنی قوت علمیہ کا کمال مراد ہے اور مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی خیر کا علم عطا فرمائے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ حکم سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا اور اس کے تمام احکام کا علم مراد ہے تاکہ ان پر عمل کیا جائے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حکم سے نبوت مراد ہے لیکن یہ بات اس صورت میں تسلیم کی جاسکتی ہے جبکہ دعائے مذکور کے بعد نبوت سے سرفراز ہوئے ہوں (راجع روح المعانی ج 19 ص 98) (وَّاَلْحِقْنِیْ بالصَّالِحِیْنَ ) (اور مجھے صالحین میں شامل فرما) یعنی مجھے ان حضرات میں شامل فرمادے جن کے علوم اور اعمال آپ کے نزدیک مقبول ہوں کیونکہ کتنا ہی علم ہو اور کیسا ہی عمل ہو مقبولیت عند اللہ کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ (وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْآخِرِیْنَ ) (اور بعد میں آنے والے لوگوں میں اچھائی کے ساتھ میرا ذکر باقی رکھئے) یعنی حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) جو میرے بعد آئیں گے اور ان کی جو امتیں ہوں گی ان میں میرا ذکر اچھائی سے ہوتا رہے یہ شرف مجھے ہمیشہ عطا فرمائیے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا بھی قبول فرمائی ان کے بعد جتنے بھی انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث ہوئے سب انہیں کی ذریت میں سے تھے ساری امتوں نے انہیں خیر کے ساتھ یاد کیا اور امت محمدیہ صلی اللہ علی صاحبھا و سلم کا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے خصوصی تعلق ہے اسے تو سب ہی جانتے ہیں اللہ جل شانہٗ نے خاتم الانبیاء ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (ثُمَّ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعِ مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا) (پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم حنیف کا اتباع کیجیے) اور شریعت محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ و التحیہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت کے بہت سے احکام ہیں اور یہ کتنی بڑی بات ہے کہ ہر نماز میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر درود بھیجنے کا ذکر ہوتا ہے اور بار الہٰی میں درخواست پیش کی جاتی ہے کہ اے اللہ محمد رسول اللہ ﷺ پر اور آپ کی آل پر صلاۃ اور برکت بھیجئے جیسا کہ آپ نے ابراہیم اور ان کی آل پر صلاۃ اور برکت بھیجی (وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ ) (اور مجھے جنت النعیم کے وارثوں میں سے بنا دیجیے) اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص کیسا ہی نیک ہو اسے بہرحال جنت نصیب ہونے کی دعا کرتے رہنا چاہئے اپنے اعمال پر گھمنڈ نہ رکھے۔ (وَاغْفِرْ لِاَبِیْ اِِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ ) (اور میرے باپ کی مغفرت فرمائیے بلاشبہ وہ گمراہوں میں سے ہے) یعنی میرے باپ کو ایمان کی توفیق دیجیے اور اس طرح مغفرت کے قابل بنا کر اس کی مغفرت فرما دیجیے اس بارے میں مزید کلام سورة توبہ کی آیت (وَّمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ ) اور سورة ابراہیم کی آیت (رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) کے ذیل میں گزر چکا ہے۔
Top