Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 87
وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَۙ
وَلَا تُخْزِنِيْ : اور مجھے رسوا نہ کرنا يَوْمَ يُبْعَثُوْنَ : جس دن سب اٹھائے جائیں گے
اور مجھے اس دن رسوا نہ کیجیے گا جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے
(وَلاَ تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَ اِِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ) (اور مجھے اس دن رسوا نہ کیجیے جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے جس دن نہ کوئی مال نفع دے گا اور نہ بیٹے سوائے اس شخص کے جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کے پاس آئے) اس سے معلوم ہوا کہ جنت النعیم حاصل ہونے کی دعا کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ قیامت کے دن رسوا نہ فرمائیے جنت میں تو کوئی رسوائی نہیں ہے اس سے پہلے رسوائی ہوسکتی ہے جیسا کہ بہت سے گناہ گاروں کے ساتھ ایسا ہوگا کہ قیامت کے دن رسوائی اور ذلت اور عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اس دن بھی با عزت ہوں گے دوسرے اشخاص اس سے عبرت حاصل کریں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے باپ آزر سے ملاقات ہوجائے گی آزر کا چہرہ بےرونق اور سیاہی والا ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ سے فرمائیں گے کیا میں نے تجھ سے نہ کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کر، اس پر ان کا باپ کہے گا کہ آج حکم دو میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بار گاہ الہٰی میں عرض کریں گے کہ اے میرے پروردگار کیا آپ نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں فرمایا کہ جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اس دن آپ مجھے رسوا نہ کریں گے سو اس سے بڑھ کر کیا رسوائی ہوگی کہ میرا باپ ہلاک ہے (یعنی کفر کی وجہ سے دوزخ میں جانے والا ہے) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے پھر ابراہیم سے خطاب ہوگا کہ اپنے پاؤں کے نیچے دیکھو وہ نظر ڈالیں گے تو انہیں ایک بالوں سے بھرا ہوا بجو نظر آئے گا جو (آلائش میں) آلودہ ہوگا (یہ ان کا باپ ہوگا جس کی صورت مسخ کردی جائے گی) اس بجو کے پاؤں پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (رواہ البخاری ص 273) جب صورت مسخ ہوجائے گی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس سے نفرت ہوجائے گی اور رسوائی کا خیال ختم ہوجائے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قیامت کے دن کی رسوائی سے محفوظ رہنے کے لیے جو دعا کی اس میں قیامت کے دن کا حال بتاتے ہوئے یوں بھی فرمایا (لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَ ) (کہ وہ ایسا دن ہوگا جس دن نہ مال کام دے گا نہ اولاد کام دے گی) اس میں ان لوگوں کو تنبیہ ہے جو مال جمع کرنے اور اپنے پیچھے اولاد کو مالدار بنا کر چھوڑنے کے جذبات میں بہہ جاتے ہیں اور حرام حلال کا کچھ خیال نہیں کرتے حرام مال تو وبال ہے ہی وہ حلال مال بھی آخرت میں وبال ہوگا جس سے فرائض اور واجبات ادا نہ کیے گئے ہوں اور جو اللہ تعالیٰ کی نا فرمانیوں میں خرچ کیا گیا ہو یہ نا فرمانیاں بچوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے سلسلہ میں بھی ہوتی ہیں خوب سمجھ لینا چاہئے کہ قیامت کے دن مال اور اولاد کام نہ آئیں گے ہاں اگر کسی نے مال کو حلال طریقہ سے کمایا اور شرعی طریقوں پر خرچ کیا اور اولاد کو اللہ تعالیٰ کے دین پر ڈالا تو یہ نیک کام نفع مند ہوں گے اسی کو فرمایا کہ (اِِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ) (کہ جو شخص قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بار گاہ میں حاضر ہوگا اس کے اموال اور اس کی اولاد اس کے لیے فائدہ مند ہونگے) یعنی قلب سلیم کا اخلاص نیک اولاد اور اعمال صالحہ اموال طیبہ ہی نافع ہوں گے۔ و الکلام علی تقدیر مضاف الی من ای لا ینفع مال ولا بنون الا مال و بنون من اتی اللہ بقلب سلیم حیث انفق مالہ فی سبیل البرو ارشدبنیہ الی الحق و حثھم علی الخیر و قصد بھم ان یکونوا عباد اللہ تعالیٰ مطیعین شفعاء لہ یوم القیامۃ۔ (روح المعانی ج 10 ص 100) فائدہ : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو یہ دعا کی کہ بعد کے آنے والوں میں میرا ذکر اچھائی کے ساتھ ہو اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں میں اپنے بارے میں اچھا تذکرہ ہونے کی آرزور رکھنا مومن کے بلند مقام کے خلاف نہیں ہے اعمال خیر کرتا رہے اور صرف اللہ کی رضا کے لیے اعمال صالحہ میں مشغول ہو ریا کاری کے جذبات نہ ہوں اور یہ بھی نہ ہو کہ لوگ میرے اعمال کو دیکھ کر میری تعریف کریں اعمال صرف اللہ کے لیے ہوں اور یہ دعا اس کے علاوہ ہو کہ لوگوں میں میرا تذکرہ خوبی کے ساتھ ہو یہ دونوں باتیں جمع ہوسکتی ہیں رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی مخلص نہیں آپ نے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں یہ دعا کی اللّٰھُمَّ اَجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا (اے اللہ مجھے اپنی نگاہ میں چھوٹا بنا دے اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بنا دے) ۔ اس میں کبر نفس کا علاج ہے جب اپنے چھوٹا ہونے کا خیال رہے گا تو لوگوں کے تعریف کرنے سے کبر میں مبتلا نہ ہوگا ہاں اتنا خیال رہنا بھی ضروری ہے کہ دوسروں کو حقیر نہ جانے اور جھوٹی تعریف کا بھی متمنی نہ ہو۔ اپنے لیے ثنائے حسن کی آرزو رکھنا جبکہ (شرائط کے ساتھ ہو) جائز ہے اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھ لیں کہ اپنی ذات کو برائی کے ساتھ مشہور کرنا بھی کوئی ہنر اور کمال کی بات نہیں ہے بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ نیک بھی ہوتے ہیں اور گناہوں سے بھی بچتے ہیں لیکن اگر کسی غلط فہمی سے بد نامی ہونے لگے تو اس کی پرواہ نہیں کرتے اگر کوئی شخص توجہ دلائے کہ اپنی صفائی پیش کریں تو کہہ دیتے ہیں کہ میں اپنی جگہ ٹھیک ہوں جو میری طرف برائی منسوب کرے گا خود غیبت میں مبتلا ہوگا اس کا اپنا برا ہوگا اور مجھے غیبت کرنے والوں کی نیکیاں ملیں گی میں کیوں صفائی دوں ؟ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے اپنی آبرو کی حفاظت کرنا بھی اچھا کام ہے اور لوگوں کو غیبت اور تہمت سے بچانا ان کی خیر خواہی ہے بعض حضرات نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا یہ مطلب بتایا ہے کہ اے اللہ مجھے اچھے اعمال سے متصف فرمائیے اور ان اعمال کو میرے بعد کے آنے والوں میں باقی رکھئے جو میرا اتباع کریں اس سے لوگ مجھے اچھائی سے یاد کریں گے اور ان کے اعمال صالحہ کا ثواب بھی ملے گا جبکہ ان کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی۔
Top