Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 76
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَكْثَرَ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ الْقُرْاٰنَ : قرآن يَقُصُّ : بیان کرتا ہے عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل پر اَكْثَرَ : اکثر الَّذِيْ : وہ جو هُمْ : وہ فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے ہیں
بلاشبہ یہ قرآن بنی اسرائیل پر اکثر ان چیزوں کو بیان کرتا ہے جن چیزوں میں وہ جھگڑ رہے ہیں،
قرآن مجید ان چیزوں کو بیان کرتا ہے جن میں بنی اسرائیل اختلاف کرتے ہیں یہ چار آیات ہیں پہلی دو آیتوں میں قرآن کی صفات بیان فرمائی ہیں اول تو یہ فرمایا کہ بنی اسرائیل جن باتوں میں اختلاف رکھتے ہیں قرآن ان کے بارے میں صحیح صحیح پوری حقیقت کو بیان کرتا ہے، ان لوگوں نے اپنی کتاب میں تو تحریف کر ہی دی تھی اور ان میں جو کچھ سنی سنائی باتیں چلی آرہی تھیں ان میں اختلاف رکھتے تھے، قرآن مجید نے واضح طور پر حق باتیں واضح فرما دیں۔ ان لوگوں کی جاہلانہ باتوں میں ایک یہ بات بھی تھی کہ العیاذ باللہ حضرت ابراہیم یہودی تھے اس بات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا (مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا) (ابراہیم یہودی اور نصرانی نہیں تھے لیکن وہ حق کی طرف مائل ہونے والے فرمانبر دار تھے) یہ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم اور یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہودیت اختیار کرنے کی وصیت فرمائی تھی اس کی تردید میں فرمایا (وَ وَصّٰی بِھَا اِبْرَاھِیْمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبَ ) ۔ اسی طرح حضرت مریم اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں غلط باتیں کہتے تھے قرآن نے اس کو بھی صاف کیا اور حضرت مریم [ کی عفت اور عصمت بیان فرمائی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا صحیح مقام بتایا کہ وہ اللہ کے بیٹے نہیں تھے بلکہ اللہ کے رسول تھے۔ قرآن مجید کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ اہل ایمان کے لیے ہدایت ہے اور رحمت ہے اہل ایمان اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اس لیے ان کے لیے قرآن ہدایت اور رحمت ہے، ہے تو غیر مومنین کے لیے بھی ہدایت اور رحمت لیکن وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اس لیے وہ اس کی خیر اور برکات سے محروم ہیں۔ تیسری آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا اس وقت حق اور باطل ظاہرہو جائے گا (وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ ) (اللہ زبردست ہے وہ قیامت کے دن سب کو حاضر فرمائے گا اور وہ علیم بھی ہے اس کو ہر ہر فرد کا اور ہر ہر فرد کے عقیدہ اور عقل کا علم ہے) کوئی اس سے چھوٹ کر جا نہیں سکتا اور کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں۔ چوتھی آیت میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی کہ آپ اللہ پر بھروسہ کیجیے ان لوگوں کی تکذیب سے غمگین نہ ہوجائیے بلاشبہ آپ صریح حق پر ہیں حق پر ہونا ہی تسلی اور ثبات قدمی کے لیے کافی ہے۔
Top