Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 22
وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَمَّا : اور جب تَوَجَّهَ : اس نے رخ کیا تِلْقَآءَ : طرف مَدْيَنَ : مدین قَالَ : کہا عَسٰى : امید ہے رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ يَّهْدِيَنِيْ : کہ مجھے دکھائے سَوَآءَ السَّبِيْلِ : سیدھا راستہ
اور جب موسیٰ نے مدین کی طرف توجہ کی تو یوں کہا کہ امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ چلا دے گا۔
موسیٰ (علیہ السلام) کا مدین پہنچنا وہاں دو لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلانا پھر ان میں سے ایک لڑکی سے شادی ہونا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب ایک شخص نے رائے دی کہ دربار والے تمہارے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں تم یہاں سے نکل جاؤ تو وہ سرزمین مصر سے روانہ ہوگئے اور مدین کی طرف چل دیئے جو ملک شام کا ایک شہر ہے۔ یہ علاقہ فرعونی حکومت میں شامل نہیں تھا۔ اور وہ زمانہ پاسپورٹ اور ویزے کا بھی نہیں تھا جو شخص جس ملک میں اور جس شہر میں چاہتا جاسکتا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین کا رخ کیا وہاں کبھی تشریف نہیں لے گئے تھے راستہ معلوم نہیں تھا اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید باندھ کر نکل کھڑے ہوئے اور یوں کہا کہ (عَسٰی رَبّْیْٓ اَنْ یَّھْدِیَنِیْ سَوَآء السَّبِیْلِ ) (امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ بتادے گا) موسیٰ (علیہ السلام) تنہا تھے کوئی رہبر نہ تھا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے اور اللہ کی مدد سے سیدھی راہ پر چل کر مدین پہنچنے کی امید باندھ کر روانہ ہوگئے بالآخر صحیح سلامت مدین پہنچ گئے۔ پہنچ تو گئے لیکن وہاں کبھی نہ جانا ہوا تھا نہ کسی سے شناسائی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے سوا کوئی ظاہری اور مجازی مددسامنے نہ تھی جب مدین پہنچے تو ایک کنوئیں پر گزر ہوا وہاں دیکھا کہ ایک بڑی جماعت ہے بھیڑ بھاڑ ہے بکریاں چرانے والے اپنی بکریاں لے کر آئے ہیں۔ اور انہیں پانی پلا رہے ہیں اور یہ بھی دیکھا کہ دو عورتیں اپنی بکریاں لیے کھڑی ہیں وہ اپنی بکریوں کو روک رہی ہیں تاکہ دوسروں کی بکریوں میں رل مل نہ جائیں اور دوسروں کا کھینچا ہوا پانی نہ پی لیں ورنہ پانی کھینچنے والے بکریوں کو مار بھگائیں گے جو ان کی اپنی نہیں ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان دونوں سے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے، الگ کھڑے ہونے کا مقصد کیا ہے ان دونوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ جو پانی پلا رہے ہیں، مرد ہیں ہم ان کے ساتھ ساتھ کنوئیں میں ڈول ڈال کر اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلا سکتے، لہٰذا ہم یہ کرتے ہیں کہ جب چرواہے اپنے اپنے مویشیوں کو پانی پلا کر واپس لے جاتے ہیں تو ہم اپنی بکریوں کو پانی پلاتے ہیں۔ ایک تو عورت ذات مردوں کی بھیڑ میں ڈول نہیں کھینچ سکتی، دوسرے مردوں کے اختلاط سے بھی بچنا ہے چونکہ یہ ایک اشکال ہوتا تھا کہ بکریوں کو پانی پلانا تم دونوں کے ذمہ کیوں پڑا ؟ کیا تمہارے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے اس لیے اس کا جواب بھی انہوں نے دے دیا (وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ) کہہ کر بتادیا کہ ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ پانی پلانے کے لیے نہیں آسکتے اور اتنا کہنے کے بعد جو خاموشی اختیار کرلی اسی خاموشی میں یہ بھی بتادیا کہ نہ ہمارے شوہر ہیں اور نہ بھائی ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ترس آگیا اور جلدی سے آگے بڑھ کر ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا اور پانی پلانے کے بعد کنوئیں سے ہٹ کر سایہ میں چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں متوجہ ہو کر عرض کیا (رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ) (اے میرے رب جو خیر آپ میرے لیے نازل فرمائیں میں اس کا محتاج ہوں۔ ) حضرت انبیائے کرام (علیہ السلام) اور مومنین صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور ہر مشکل میں اور ہر بےبسی میں اسی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ لفظ مِنْ خَیْرٍ میں جو نکرہ ہے اس کے عموم میں سب کچھ آگیا ہے۔ بھوک دور کرنے کا انتظام بھی، کچھ غذا بھی اور امن وامان بھی، نیز رہنے کا ٹھکانہ بھی، مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے روانہ ہو کر مدین پہنچے، پورے سفر میں سبزیوں کے پتے کھاتے رہے بھوک کی وجہ سے پیٹ کمر سے لگ گیا تھا بھوکے بھی تھے، دبلا پن بھی ظاہر ہو رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے جو خیر کا سوال کیا اس میں خاص طور سے کھانے والی چیز کا سوال بھی تھا۔ دونوں عورتیں آج اپنی بکریوں کو لے کر خلاف عادت جلدی گھر پہنچیں تو ان کے والد نے کہا کہ کیا بات ہے کہ آج تم جلدی آگئیں، انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے ہماری بکریوں کو پانی پلا دیا ہے اور ساتھ ہی اس شخص کی اچھی صفات بھی بیان کردیں۔ ان دونوں عورتوں کے والد نے کہا کہ اچھا جاؤ اس شخص کو بلا لاؤ۔ چناچہ ان دونوں میں سے ایک عورت آئی جو شرماتی ہوئی چل رہی تھی۔ روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے چہرہ پر کپڑا ڈال رکھا تھا اس نے کہا کہ یقین جانئے کہ میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ کو پانی پلانے کا صلہ دیں۔ روح المعانی میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ لیکن انہوں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ وہ شرماتی ہوئی آرہی ہے اور خود بھی شرمیلے تھے اور حیا و شرم تمام نبیوں کا شعار تھا لہٰذا اس عورت سے کہا کہ تو میرے پیچھے پیچھے چل اور مجھے راستہ بتاتی رہنا۔ دائیں بائیں جدھر کو مڑنا ہو بتادینا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی گوارہ نہ کیا کہ پردہ دار عورت کے پیچھے چلیں جو اچھی طرح کپڑوں کو ڈھانکی ہوتی تھی۔ اس طرح چلتے ہوئے اس لڑکی کے والد کے پاس پہنچے۔ جب ان کے پاس پہنچ گئے تو اپنا واقعہ بتایا۔ انہوں نے قصہ سن کر تسلی دی اور کہا کہ آپ خوفزدہ نہ ہوں آپ ظالم قوم سے نجات پا چکے ہیں جن لوگوں نے آپ کے قتل کا مشورہ کیا ہے ان کی دسترس سے نکل چکے ہیں اس ملک میں ان لوگوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک عورت نے کہا ابا جان اس شخص کو آپ ملازمت پر رکھ لیجیے۔ یہ بکریاں بھی چرائیں گے اور دوسری خدمت بھی انجام دیں گے۔ میرے نزدیک یہ شخص قوی بھی ہے امین بھی ہے اور ملازم رکھنے کے لیے وہی شخص بہتر ہے جو قوی ہو اور امین بھی ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قوی ہونا ان کی بھری ہوئی جوانی سے ظاہر تھا اور پانی پلاتے وقت جو ان کا عمل دیکھا تھا اس سے بھی ان کی قوت و طاقت کا مظاہرہ ہوچکا تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب ان دونوں عورتوں نے یوں کہا کہ ہم اس وقت تک پانی نہیں پلا سکتے جب تک چرواہے اپنے مویشیوں کو پانی پلا کر واپس نہ لے جائیں تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دریافت فرمایا، کیا اس کنوئیں کے علاوہ کہیں اور بھی پانی ہے ؟ اس پر ان دونوں عورتوں نے کہا کہ ہاں قریب میں ایک کنواں اور ہے اسکے منہ پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا ہے اسے چند آدمی بھی مل کر نہیں اٹھا سکتے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بتاؤ وہ کہاں ہے وہ دونوں انہیں اس کنویں پر لے گئیں حضرت موسیٰ نے ایک ہی ہاتھ سے اس پتھر کو ہٹا دیا پھر ان کی بکریوں کو پانی پلا کر پتھر کو اسی طرح کنویں کے منہ پر رکھ دیا جس طرح پہلے رکھا تھا۔ (روح المعانی ص 63: ج 2) اور موسیٰ (علیہ السلام) کا امین ہونا اس سے ظاہر ہوا کہ انہوں نے اپنی نظر تک کو خیانت سے بچایا اور یہاں تک احتیاط کی کہ عورت کو اپنے پیچھے چلنے کے لیے فرمایا اور خود آگے آگے چلے۔ شیخ مدین نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں لڑکیوں میں سے تمہارے ساتھ ایک کا نکاح کر دوں، بشرطیکہ تم میرے پاس بطور اجیر آٹھ سال کام کرو۔ میری طرف سے تو آٹھ سال ہی کا مطالبہ رہے گا اور اگر تم دس سال پورے کر دو تو یہ تمہاری طرف سے بطور تفضل اور مہربانی کے ہوگا یعنی تمہاری طرف سے ایک احسان ہوگا۔ میں تمہیں تکلیف میں ڈالنا نہیں چاہتا، نہ دس سال پورے کرنے کے لیے کہوں گا اور نہ کاموں میں دارو گیر کروں گا۔ (قال فی الروح بالزام اتمام العشر والمناقشۃ فی مراعاۃ الاوقات واستیفاء الاعمال) ساتھ ہی یہ بھی فرمایا : (سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآء اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (کہ انشاء اللہ تم مجھے اچھے لوگوں میں پاؤگے) حسن معاملہ اور برتاؤ میں نرمی اور وفائے عہد میں تم مجھے اچھاپاؤ گے اور میری طرف سے کوئی دکھ تکلیف اور کدورت والی کوئی بات محسوس نہ کرو گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شیخ مدین کی پیش کش پسند آگئی اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کی تھی اس کی قبولیت سامنے آگئی، نکاح کا بھی انتظام ہوگیا اور کھانے پینے کا بھی نیز رہنے کا ٹھکانہ بھی مل گیا، لہٰذا شیخ مدین کے جواب میں فرمایا کہ ہاں ٹھیک ہے یہ میرا اور آپ کا معاملہ اور معاہدہ ہوگیا، آپ بھی اپنی بات پر قائم رہیں اور میں بھی اس معاملے کے مطابق عمل کرتا رہوں گا جو آپ نے آٹھ یا دس سال کے لیے مجھ سے خدمت لینے کا معاملہ کیا۔ دونوں مدتوں میں جو بھی پورا کرلوں، مجھے اختیار ہے اگر آٹھ سال کے بعد میں نے کام چھوڑ دیا تو آپ کی طرف سے مجھ پر زیادہ تکلیف دینے کے لیے زیادتی نہ ہوگی۔ آخر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یوں کہا کہ (وَ اللّٰہُ عَلٰی مَانَقُوْلُ وَکِیْلٌ) (اللہ اس پر وکیل ہے جو ہم کہہ رہے ہیں) وکیل کا ترجمہ کسی نے نگران کا کیا ہے کسی نے گواہ کا کیا ہے اور کسی نے معنی معرف کا مراد لیا ہے۔ (وَ ھُوَ الَّذِیْ وُکِّلَ اِلَیْہِ الْاَمْرُ ) یہ سارے معانی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ وکیل بمعنی گواہ مراد لینے سے یہ مطلب ہوگا کہ ہم نے جو کچھ آپس میں معاہدہ و معاملہ کیا ہے ہم اس بارے میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتے ہیں کسی بھی فریق کو اپنے عہد کی مخالفت کرنے کی گنجائش نہ ہوگی۔ حضرت عتبہ بن ندر ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے۔ آپ نے سورة طسٓمٓ پڑھی۔ یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے تک پہنچ گئے (اور) فرمایا بلاشبہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی شرمگاہ کو پاک رکھنے کی اور اپنے پیٹ کی روزی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کو آٹھ سال یا دس سال مزدوری کے کام میں لگایا۔ (رواہ احمد وابن ماجہ ص 167) مفسر ابن کثیر ؓ نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پورے دس سال شیخ مدین کے پاس گزارے اور ان کی بکریاں چرائیں۔ (ابن کثیر ص 386: ج 3) شرح مواہب لدنیہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدہ فاطمہ ؓ حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے اور علی کے پاس صرف ایک مینڈھے کی کھال ہے جس پر ہم رات کو سوتے ہیں اور دن کو اس پر اونٹ کو چارہ کھلاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے میری بیٹی ! صبر کر ! کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دس برس تک اپنی بیوی کے ساتھ قیام کیا اور دونوں کے پاس صرف ایک عبا تھی (اسی کو اوڑھتے اور اسی کو بچھاتے تھے) اگر یہ روایت صحیح السند ہو تو پھر دس سال پورے کرنا متعین ہوجاتا ہے اور اس صورت میں حضرت عتبہ بن ندر ؓ کی روایت میں جو دس یا آٹھ سال کے الفاظ شک کے ساتھ ہیں اس شک کو راوی کے شک پر محمول کیا جائے گا۔ 1 ؂ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا، کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں ؟ آپ نے فرمایا، ہاں چند قیراط کے عوض میں نے بھی اہل مکہ کی بکریاں چرائی ہیں۔ (رواہ البخاری ص 301) مرقات شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ اس زمانہ میں ایک قیراط ایک درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ بکری ضعیف جنس ہے ادھر ادھر بھاگ جاتی ہے اسے مارا جائے تو ٹانگ ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا بکری چرانے والے کو شفقت اور صبر سے ہی کام لینا پڑتا ہے۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے پہلے بکریاں چرائیں، مزاج میں صبر اور تحمل کی شان پیدا ہوئی پھر ان کو نبوتیں عطا کی گئیں تاکہ مخالفین سے پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کرسکیں اور تحمل اور برداشت سے کام لیں۔ فوائد فائدہ اولیٰ : قرآن مجید میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ ان دونوں عورتوں کے والد نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی معاوضہ دیایا کھانا کھلایا البتہ روح المعانی (ص 65 ج 2) میں ابن عساکر سے نقل کیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب وہاں پہنچے تو شیخ رات کے کھانے کے لیے بیٹھے تھے انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آؤ کھانا کھاؤ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ میرے پانی پلانے کا عوض بھی نہیں دے سکتے جس سے پوری زمین بھر جائے، شیخ نے کہا کہ یہ اجرت نہیں ہے۔ میرے اور میرے باپ دادوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ ہم مہمان نوازی کرتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہیں، اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالیا۔ 1 ؂ صحیح بخاری ص 329 میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے کون سی مدت پوری کی، انہوں نے جواب میں فرمایا کہ دونوں میں جو اکثر اور اطیب تھی وہی پوری کی (یعنی دس سال شیخ مدین کی خدمت میں رہے) اللہ کے رسولوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب کوئی بات کہتے تھے تو اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ولفظہ قضی اکثرھما واطیبھما ان رسول اللّٰہ اذا قال فعل (باب من امربانجاز الوعد) (اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے زیادہ اور بہتر مدت کو پورا کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا رسول جب کوئی بات کہتا ہے تو کر کے دکھاتا ہے) فائدہ ثانیہ : یہ شیخ مدین کون تھے جن کے یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قیام فرمایا ؟ اس کے بارے میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے مفسر ابن کثیر ؓ نے حضرت حسن بصری ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے لیکن بہت سے علماء نے فرمایا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے بہت پہلے گزر چکے تھے ان لوگوں کا استدلال سورة ہود کی آیت (وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْکُمْ بِبَعِیْدٍ ) سے ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ لوط کی قوم زمانے کے اعتبار سے تم سے دور نہیں ہے اور یہ معلوم ہے کہ لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوئی تھی۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے درمیان چار سو سال کا فصل تھا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے خسر شعیب (علیہ السلام) کیسے ہوسکتے ہیں ؟ بعض لوگوں نے اس اشکال کو یوں رفع کیا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی عمر اتنی زیادہ دراز ہوئی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا زمانہ پا لیا۔ لیکن اس کی کوئی سند نہیں۔ (ابن کثیر) صاحب روح المعانی نے حضرت ابو عبیدہ سے نقل کیا ہے کہ جو صاحب موسیٰ (علیہ السلام) کے خسر تھے ان کا نام اثرون تھا اور یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے اور بعض حضرات نے ان کا نام ہارون اور بعض حضرات نے مروان اور بعض حضرات نے عاوید بتایا ہے اور ان سب کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کا بھتیجا ظاہر کیا ہے۔ مفسر ابن جریر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جس صاحب نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بطور اجیر اپنے یہاں رکھا تھا ان کا نام یثرب تھا۔ اس بارے میں بعض دیگر اقوال بھی ہیں۔ صاحب روح المعانی اور علامہ قرطبی ؓ کا رجحان اسی طرف ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خسر شعیب (علیہ السلام) ہی تھے، لیکن مفسر ابن کثیر ؓ نے ابن جریر سے نقل کیا ہے کہ (اِنَّ ھٰذَا لا یدرک الا بخبر و لا خبر تجب بہٖ الحجۃُ فِیْ ذٰلِکَ ) یعنی کسی حدیث کے بغیر اس کے بارے میں صحیح بات نہیں کہی جاسکتی اور اس بارے میں کوئی ایسی روایت سامنے نہیں ہے جس سے حجت قائم ہو سکے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ فائدہ ثالثہ : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شیخ مدین نے یوں کہا کہ میں آپ کو اپنے یہاں کام پر ملازم رکھنا چاہتا ہوں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بلا تکلف اسے منظور فرما لیا اس سے معلوم ہوا کہ اپنی ضرورت اور حاجت کے لیے مزدوری کرنا کوئی عار اور عیب نہیں ہے، خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے بارے میں فرمایا کہ میں نے بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرائی ہیں۔ (کما مر فی الحدیث) بہت سے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ کچھ پڑھ لکھ لیتے ہیں یا اپنے آپ کو کسی اونچے خاندان کا فرد سمجھتے ہیں تو ملازمت و مزدوری کرنے کو عار سمجھتے ہیں۔ بھوکے رہتے ہیں۔ حاجتیں رکی رہتی ہیں۔ لیکن مزدوری کرنے سے بچتے ہیں اور اس میں اپنی حقارت سمجھتے ہیں۔ قرضوں پر قرضے لیے چلے جاتے ہیں جبکہ ادائیگی کا بظاہر انتظام بھی نہیں ہوتا لیکن محنت مزدوری کر کے کسب حلال کی طرف نہیں بڑھتے۔ یہ صالحین کا طریقہ نہیں ہے۔
Top