Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 54
اُولٰٓئِكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْتَوْنَ : دیا جائے گا انہیں اَجْرَهُمْ : ان کا اجر مَّرَّتَيْنِ : دہرا بِمَا صَبَرُوْا : اس لیے کہ انہوں نے صبر کیا وَيَدْرَءُوْنَ : اور دور کرتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : بھلائی سے السَّيِّئَةَ : برائی کو وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے دیا انہیں يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
یہ وہ لوگ ہیں جن کو صبر کرنے کی وجہ سے دہرا ثواب دیا جائے گا اور یہ لوگ بھلائی کے ذریعہ برائی کو دفع کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
مؤمنین اہل کتاب کی ایک صفت بیان فرمائی کہ وہ اچھائی کے ذریعہ برائی کو دفع کرتے ہیں یعنی گناہ کے بعد نیک کام کرلیتے ہیں جن سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ نیکیوں کے ذریعہ گناہوں کا معاف ہوجانا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے اور یہ اس کا بہت بڑا کرم ہے۔ سورة ہود میں فرمایا ہے (اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیّْاٰتِ ) (بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں) حضرت ابوذر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تو جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرو اور برائی کے پیچھے نیکی لگا دو ۔ یہ نیکی اس برائی کو مٹا دے گی۔ اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ میل جول رکھو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 432: از ترمذی) اور بعض حضرات نے برائی کو اچھائی کے ذریعہ دفع کرنے کا مطلب یہ لیا ہے کہ جب کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو اس کے سرزد ہوجانے پر توبہ و استغفار کرلیتے ہیں اس نیکی سے وہ برائی گم ہوجاتی ہے یہ معنی مراد لینا بھی الفاظ قرآنیہ سے بعید نہیں ہیں۔ (وَ یَدْرَءُ وْنَ بالْحَسَنَۃِ السَّیِّءَۃَ ) کا مطلب مفسرین نے یہ بتایا ہے جو سیاق قرآنی سے اقرب ہے کہ جو لوگ ان کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آئیں۔ بد کلامی کریں وہ ان کی اس حرکت کو تحمل اور برداشت کے ذریعہ دفع کردیتے ہیں یعنی بدلہ لینے اور ترکی بہ ترکی جواب دینے کا ارادہ نہیں کرتے عفو اور درگزر اور نرمی اختیار کرتے ہیں۔ یہ مفہوم سورة فصلت کی آیت کریمہ (اِدْفَعْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ) کے ہم معنی ہے۔ مؤمنین اہل کتاب کی تیسری صفت انفاق مال بتائی اور فرمایا (وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ) (اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں) اہل ایمان کی یہ صفت قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمائی ہے۔ یہاں مؤمنین اہل کتاب کی صفات میں خاص طور سے اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ حضرت جعفر ؓ کے ساتھ حبشہ سے جو افراد آئے تھے جن کا ذکر اوپر ہوا مدینہ منورہ پہنچ کر جب انہوں نے مسلمانوں کی مالی تنگی دیکھی تو کہنے لگے کہ اے اللہ کے نبی ﷺ ہمارے پاس بہت سے اموال ہیں اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو واپس جا کر اپنے اموال لے آئیں اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کریں۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی اور واپس گئے اور اپنے اموال لے کر آگئے جن کے ذریعہ انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ (ذکرہ فی معالم التنزیل عن سعید بن جبیر)
Top