Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 61
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جو وَّعَدْنٰهُ : ہم نے وعدہ کیا اس سے وَعْدًا حَسَنًا : وعدہ اچھا فَهُوَ : پھر وہ لَاقِيْهِ : پانے والا اس کو كَمَنْ : اس کی طرح جسے مَّتَّعْنٰهُ : ہم نے بہرہ مند کیا اسے مَتَاعَ : سامان الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی ثُمَّ : پھر هُوَ : وہ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مِنَ : سے الْمُحْضَرِيْنَ : حاضر کیے جانے والے
سو جس شخص سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو پھر وہ اسے پانے والا ہو کیا اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے دنیا والی زندگی کا سامان دے دیا پھر وہ قیامت کے دن گرفتار کر کے لایا جائے گا،
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا مشرکین سے خطاب اور یہ سوال کہ جنہیں تم نے شریک ٹھہرایا تھا وہ کہاں ہیں ؟ مذکورہ بالا سات آیات ہیں۔ پہلی آیت میں آخرت کے انجام کے اعتبار سے مومن اور کافر کا فرق بتایا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے کہ ایک تو وہ شخص ہے جس سے ہم نے اچھا وعدے کر رکھا ہے کہ اس کو ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے ابدی نعمتیں ملیں گی، اور ایک وہ شخص ہے جو مومن نہیں ہے لیکن اسے ہم نے دنیا والی زندگی کا سامان دے رکھا ہے جسے وہ استعمال کرتا ہے دنیا میں تو بظاہر کامیاب سمجھا جاتا ہے لیکن کیونکہ وہ کافر ہے اس لیے وہ قیامت کے دن گرفتار ہو کر آئے گا۔ اور پھر دوزخ میں چلا جائے گا۔ غور کرنے والے غور کریں اور سمجھنے والے بتائیں کیا یہ مومن اور کافر برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس میں جہاں کافروں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ چند روزہ زندگی اور سامان عشرت پر نہ اترائیں وہاں مسلمانوں کو بھی بتادیا گیا ہے کہ کافروں کے سامان کی طرف نظریں نہ اٹھائیں یہ تھوڑے دن کی حقیر دنیا ہے اس کو دیکھ کر للچانا ایمانی تقاضے کے خلاف ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہرگز کسی فاجر کی نعمت پر رشک نہ کر، کیونکہ تجھے معلوم نہیں کہ موت کے بعد کس چیز سے ملاقات کرنے والا ہے بیشک اللہ کے نزدیک اس کے لیے ایک قاتل ہے جسے کبھی موت نہ آئے گی یعنی دوزخ۔ (اس میں داخل ہوگا اور چھٹکارہ کا کوئی راستہ نہ ہوگا) ۔ دوسری آیت سے لے کر چھٹی آیت کے ختم تک مشرکین اور کافرین سے جو خطاب ہوگا اس کا ذکر ہے۔ اول تو یہ فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے پکار کر سوال فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں ؟ جنہیں تم میرا شریک سمجھ رہے تھے اس کے جواب میں ان کے گمراہ کرنے والے شیاطین جن کے بارے میں یہ طے ہوچکا ہے کہ انہیں دوزخ میں جانا ہی ہے یوں کہیں گے کہ اے ہمارے رب بیشک یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے بہکایا ہم نے انہیں ایسے ہی بہکایا جیسے ہم بہکے تھے یعنی نہ ہم پر کسی نے کوئی زبردستی کی تھی نہ ہم نے ان پر زبردستی کی، ہم گمراہ ہوئے انہیں بھی گمراہی کی باتیں بتائیں انہوں نے بات مان لی۔ دنیا میں ہم نے انہیں گمراہی پر لگایا اور یہ بھی ہماری باتوں میں آگئے اب یہاں تو ہم آپ کے حضور میں ان سے بیزار ہیں جب بہکانے والے اور گمراہ کرنے والے اپنے متبعین سے بیزاری ظاہر کریں گے تو وہ یوں کہیں گے کہ اگر ہمیں دنیا میں واپس جانا نصیب ہوجاتا تو ہم بھی ان سے بیزاری ظاہر کرتے (کما فی سورة البقرۃ) ۔ (وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْھُمْ کَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا) بہکانے والے ساتھ ہی یوں بھی کہیں گے (مَا کَانُوْٓا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ ) کہ یہ لوگ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے (یہ حقیقت میں اپنی خواہشوں کے بندے تھے گمراہی کی باتیں ان کی خواہشوں کے مطابق تھیں لہٰذا انہیں قبول کرلیا اور وہ اپنی بربادی کا سبب خود بنے) مشرکین سے یہ بھی کہا جائے گا کہ جنہیں تم اپنے خیال میں ہمارا شریک سمجھتے تھے انہیں پکارو ! وہ حیرانی کے عالم میں انہیں پکاریں گے لیکن وہ ان کی بات کا جواب نہ دیں گے وہ اپنی ہی مصیبت میں مبتلا ہوں گے کسی کو کیا جواب دیں۔ (وَ رَاَوُا الْعَذَابَ ) (اور گمراہی کی دعوت دینے والے اور جنہیں گمراہی کی دعوت دی گئی عذاب کو دیکھ لیں گے) (لَوْ اَنَّھُمْ کَانُوْا یَھْتَدُوْنَ ) (اس وقت وہ آرزو کریں گے کہ ہائے کاش ہم دنیا میں ہدایت پر ہوتے) اور بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ کاش اس وقت کوئی ایسی تدبیر جان لیتے جس سے یہ عذاب دفع ہوسکتا۔ اگر کوئی تدبیر ہوتی تو اس کو اختیار کرلیتے۔
Top