Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 79
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ١ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پر (سامنے) قَوْمِهٖ : اپنی قوم فِيْ : میں (ساتھ) زِيْنَتِهٖ : اپنی زیب و زینت قَالَ : کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُرِيْدُوْنَ : چاہتے تھے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی يٰلَيْتَ : اے کاش لَنَا مِثْلَ : ہمارے پاس ہوتا ایسا مَآ اُوْتِيَ : جو دیا گیا قَارُوْنُ : قارون اِنَّهٗ : بیشک وہ لَذُوْ حَظٍّ : نصیب والا عَظِيْمٍ : بڑا
سو وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی ٹھاٹھ باٹھ میں نکلا، جو لوگ دنیا والی زندگی کے طالب تھے وہ کہنے لگے کاش ہمارے لیے بھی ایسا ہی مال ہوتا جیسا قارون کو دیا گیا ہے۔ بلاشبہ وہ بڑے نصیب والا ہے۔
(فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖ ) (الیٰ الآیات الاربع) قارون کو اپنے مال پر فخر بھی تھا تکبر بھی تھا، ایک دن ریاکاری کے طور پر مالی حیثیت دکھانے کے لیے ٹھاٹھ باٹھ ساز و سامان کے ساتھ نکلا (جیسے اس دور میں مالدار لوگ بعض علاقوں میں ہاتھی پر بیٹھ کر بازاروں میں نکلتے ہیں اور بعض لوگ بلا ضرورت بڑی بڑی کوٹھیاں بناتے ہیں پھر ریا کاری کے لیے لوگوں کی دعوتیں کرتے ہیں اور آنے والوں کو مختلف کمرے اور ان کا ساز و سامان دکھاتے پھرتے ہیں حد یہ کہ بیٹی کو جو جہیز دیتے ہیں وہ بھی ریا کاری کے ساتھ گاڑی کے ساتھ آگے پیچھے اس طرح روانہ کرتے ہیں کہ ایک ایک چیز کو ایک ایک مزدور ہاتھ میں لے کر یا سر پر رکھ کر گزرتا ہے) پھر جب لڑکی کے سسرال میں سامان پہنچتا ہے تو آنے جانے والوں کو دکھانے کے لیے گھر سے باہر سجاتے ہیں۔ جب قارون زینت کی چیزیں لے کر نکلا اور لوگوں کو لمبا جلوس نظر آیا تو ان کی رال ٹپکنے لگی۔ کہنے لگے اے کاش ہمارے پاس بھی اسی طرح کا مال ہوتا جیسا کہ قارون کو دیا گیا ہے بیشک وہ بڑا نصیب والا ہے، یہ بات سن کر اہل علم نے کہا (جو دنیا کی بےثباتی اور آخرت کے اجور کی بقا کو جانتے تھے) کہ تمہارا انجام برا ہو تم دنیا دیکھ کر للچائے گئے یہ تو حقیر اور فانی تھوڑی سی دنیا ہے اصل دولت ہے ایمان کی اور اعمال صالحہ کی جو شخص ایمان لائے اور اعمال صالحہ کو اختیار کرے اس کے لیے اللہ کا ثواب بہتر ہے۔ ( رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ادنیٰ درجہ کے جنتی کو جنت میں اتنی وسیع جنت دی جائے گی جو اس پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اور اس سے دس گنا زیادہ ہوگی۔ اسی سے دوسری نعمتوں کا اندازہ کرلیا جائے) (وَ لَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ ) (اور یہ بات جو بیان کی گئی کہ اہل ایمان اور اعمال صالحہ والوں کے لیے اللہ کا ثواب بہتر ہے ( یہ بات انہی بندوں کے دلوں میں ڈالی جاتی ہے جو طاعات اور عبادات پر جمے رہتے ہیں اور معاصی سے بچتے ہیں۔ قارون کروفر کے ساتھ نکلا۔ اہل دنیا دیکھنے والے اس پر ریجھ گئے اب اس پر اللہ تعالیٰ کی گرفت کا وقت آگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔ نہ مال کام آیانہ جماعت کام آئی نہ نوکروں اور چاکروں نے مدد کی اور نہ کوئی تدبیر کرسکا تاکہ اللہ کے عذاب سے بچ جاتا۔ جب صبح ہوئی تو لوگ دیکھ رہے ہیں کہ کہاں گیا قارون اور کہاں گیا اس کا گھر نہ خود ہے نہ گھر ہے، وہ خود اور اس کا گھر زمین کا لقمہ بن چکے ہیں۔ اب تو وہ لوگ کہنے لگے جو کل اس کے جیسا مالدار ہونے کی آرزو کر رہے تھے یہ ہماری بےوقوفی تھی اصل بات یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے زیادہ رزق دے دے اور جس کے لیے چاہے تنگ کر دے، مالداری پر رشک نہ کیا جائے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ہماری آرزو کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہمیں قارون جیسا مال کثیر عطا نہیں فرمایا۔ اگر ہمیں مال مل جاتا تو ہم بھی اسی کی طرح اتراتے اور زمین میں دھنسا دیئے جاتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مال کثیر نہ دے کر ہم پر کرم فرمایا اور زمین میں دھنسانے سے بچا لیا۔ وہ لوگ آخر میں اظہار ندامت کے طور پر کہنے لگے واقعی بات یہ ہے کہ کافر کامیاب نہیں ہوتے (اب ایمان اور اعمال صالحہ کی قدر ہوئی) ۔ کافروں کو دوزخ میں جانا ہے تو اس کی دولت کو دیکھ کر للچانا کسی طرح زیب نہیں دیتا مومن بندے جنت کے طالب ہیں اسی کے لیے عمل کرتے ہیں ان کی نظر میں کافر کی دولت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ کافروں کی چہل پہل مال و دولت پر کبھی نہ جائے ان کے اموال و احوال کو کبھی نظر میں نہ لائے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہرگز فاجر کی نعمت پر رشک نہ کر کیونکہ تو نہیں جانتا کہ موت کے بعد اسے کس مصیبت سے ملاقات کرنی ہے بلاشبہ اس کے لیے اللہ کے نزدیک ایک قاتل ہے جسے کبھی موت نہ آئے گی یہ قاتل دوزخ کی آگ ہے (وہ اسی میں ہمیشہ رہے گا) ۔ (کذافی المشکوٰۃ ص 447 از شرح السنہ) جب کافر کو دوزخ میں جانا ہے تو اس کی دولت کو دیکھ کر للچانا کسی طرح زیب نہیں دیتا مومن بندے جنت کے طالب ہیں اسی کے لیے عمل کرتے ہیں ان کی نظر میں کافر کی دولت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ فائدہ : قارون کے واقعہ کا گزشتہ مضامین میں ربط کیا ہے اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ شروع سورت میں جو (نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی) فرمایا تھا یہ اسی سے متعلق ہے، سورت کے شروع میں موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بتایا اور سورت کے ختم کے قریب قوم کے ایک شخص کی مالداری اور بربادی کا تذکرہ فرمایا، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا ربط آیت کریمہ (وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) سے ہے قارون کو مالداری اور دنیا داری اور بربادی کی ایک نظیر پیش فرما کر یہ بتادیا کہ اہل دنیا کا برا انجام ہوتا ہے۔ (روح المعانی) قولہ تعالیٰ ” ویکان اللّٰہ “ ” ویکانہ “ قال صاحب الروح ووی عند الخلیل و سیبویہ اسم فعل و معناھا اعجب و تکون للتحسر والتندم ایضا کما صرحوا بہ، و عن الخلیل أن القوم ندموا فقالوا امتندمین علی ما سلف منھم، و کل من ندم وأراد اظھار ندمہ قال ” وی “ و لعل الاظھر ارادۃ التعجب بأن یکونوا تعجبوا اولا مما و قع و قالوا ثانیا کان الخ و کان فیہ عاریۃ عن معنی التشبیہ جئی بھا للتحقیق۔ (ص 124: ج 20) اللہ تعالیٰ کا ارشاد وَیْکَانَّہٗ اس کے بارے میں تفسیر روح المعانی کے مصنف فرماتے ہیں خلیل اور سیبویہ کے نزدیک ” وی “ اسم بمعنی فعل ہے اور اس کا معنی ” أعجب “ مجھے تعجب ہے۔ “ اور یہوی حسرت و ندامت کے اظہار کے لیے بھی آتا ہے جیسا کہ اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے۔ خلیل کہتے ہیں کہ قوم والے پشیمان ہوئے اور کہنے لگے ” وی “ یعنی جو کچھ ان سے ہوچکا اس پر ندامت کرتے ہیں۔ اور ہر آدمی جو پشیمان ہوا اور اس نے اپنی ندامت ظاہر کرنا چاہی تو کہتا ہے ” وی “ اور اس سے زیادہ ظاہر یہ کہ اس سے مراد تعجب ہو اس طرح کہ جو واقعہ پیش آیا پہلے انہوں نے اس پر تعجب کیا اور پھر کہا ” کان “ اور اس وقت یہ کأن تشبیہ سے خالی ہوگا اور تحقیق کے لیے استعمال کیا گیا ہے) ۔
Top