Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 45
اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ
اُتْلُ : آپ پڑھیں مَآ : جو اُوْحِيَ : وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب سے وَاَقِمِ : اور قائم کریں الصَّلٰوةَ ۭ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز تَنْهٰى : روکتی ہے عَنِ الْفَحْشَآءِ : بےحیائی سے وَالْمُنْكَرِ ۭ : اور برائی وَلَذِكْرُ اللّٰهِ : اور البتہ اللہ کی یاد اَكْبَرُ ۭ : سب سے بڑی بات وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَصْنَعُوْنَ : جو تم کرتے ہو
جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے آپ اس کی تلاوت فرمائیے اور نماز قائم کیجیے، بلاشبہ نماز بےحیائی سے اور برے کاموں سے روکتی ہے اور البتہ اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ جانتا ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کرنے اور نماز قائم کرنے کا حکم اس آیت کریمہ میں دو حکم ہیں، پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کتاب آپ کو دی ہے آپ اس کی تلاوت کرتے رہیں۔ تنہائی میں تلاوت کرنا، نمازوں میں قرآن مجید پڑھنا، لوگوں کے سامنے پڑھنا اور اس کی تعلیم دینا الفاظ کا عموم ان سب کو شامل ہے دوسرا حکم یہ ہے کہ آپ نماز قائم کریں۔ دیگر آیات میں بھی نماز قائم کرنے کا حکم وارد ہوا ہے، سورة بنی اسرائیل میں ارشاد ہے (اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ ) اور سورة ہود میں فرمایا ہے (وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ) ان آیات میں آنحضرت ﷺ کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ حکم جہاں آپ ﷺ کو ہے وہاں آپ کی امت کو بھی ہے اور امت کو علیحدہ خطاب بھی ہے۔ سورة بقرہ میں فرمایا (وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ) علماء نے فرمایا ہے کہ لفظ اقامۃ الصلوٰۃ اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت زیادہ عام ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کو پڑھنے کی طرح پڑھو اس میں سنتوں اور مستحبات کا اہتمام اور نماز باجماعت کی ادائیگی اور خشوع و خضوع سے پڑھنا سب آجاتا ہے۔ نماز بےحیائی سے روکتی ہے پھر نماز کا خاصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ (اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ ) (بلاشبہ نماز بےحیائی سے اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ) درحقیقت نماز کو نماز کی طرح پڑھا جائے تو وہ گناہوں کے چھڑانے کا سبب بن جاتی ہے، نماز میں قرأت قرآن بھی ہے اور تسبیح بھی تکبیر بھی ہے تحمید بھی، رکوع بھی ہے سجود بھی، خشوع بھی ہے خضوع بھی، اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اظہار بھی ہے اور اپنی عاجزی اور فروتنی کا تصور بھی، ان سب امور کا دھیان کرکے نماز پڑھی جائے تو بلاشبہ نمازی آدمی بےحیائی کے کاموں اور گناہوں سے رک جائے گا، جس شخص کی نماز جس قدر اچھی ہوگی اسی قدر گناہوں سے دور ہوگا اور جس قدر نماز میں کمی ہوگی اسی قدر گناہوں کے چھوٹنے میں دیر لگے گی، آدمی اگرچہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو بہرحال نماز پڑھتا رہے کبھی نہ کبھی اس کی نماز انشاء اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو چھڑا ہی دے گی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے اور صبح ہوتی ہے تو چوری کرلیتا ہے، آپ نے فرمایا کہ اس کا نماز پڑھنے والا عمل اسے اس عمل سے روک دے گا جسے تو بیان کر رہا ہے۔ (ذکرہ صاحب الروح وعزاہ الیٰ احمد وابن ابی حاتم والبیھقی 21) دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ گناہوں میں بھی مشغول رہتے ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں اس پر جو اشکال ہوتا ہے اس کا جواب ہمارے بیان میں گزر چکا ہے اور بعض حضرات نے یوں فرمایا ہے کہ نماز تو بلاشبہ برائیوں سے روکتی ہے لیکن روکنے کی وجہ سے رک جانا ضروری نہیں، آخر واعظ بھی تو وعظ کرتے ہیں، برائیوں کی وعیدیں سناتے ہیں، پھر جو رکنا چاہتا ہے وہی رک جاتا ہے اور جو رکنا نہیں چاہتا وہ گناہ کرتا رہتا ہے۔ اور بعض علماء نے جواب دیا ہے کہ نماز کم از کم اتنے وقت تک تو گناہوں سے روکتی ہی ہے جتنی دیر نماز میں مشغول رہتا ہے۔ بعض گناہ ایسے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے انسان نماز نہیں پڑھ سکتا نمازی آدمی اس سے ضرور بچے گا۔ مثلاً پیشاب کرکے یوں ہی اٹھ جائے اور استنجا نہ کرے، نمازی سے یہ نہیں ہوسکتا، اور کوئی نمازی ستر کھول کر رانیں دکھاتا ہوا نہیں پھر سکتا، اور نماز کو جاتے ہوئے راستہ میں گناہ نہیں کرسکتا۔ اور اسی طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو غور کرنے سے سمجھ میں آسکتی ہیں۔ ذکر اللہ کے فضائل : نماز کی اہمیت بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (وَ لَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ) (اور اللہ کا ذکر البتہ بہت بڑی چیز ہے) درحقیقت اللہ کا ذکر ہی پورے عالم کی جان ہے، جب تک دنیا میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے آسمان و زمین قائم ہیں اور دوسری مخلوق بھی موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک زمین میں ایک مرتبہ بھی اللہ اللہ کہا جاتا رہے گا۔ (رواہ مسلم ص 84: ج 1) نماز بھی اللہ کا ذکر کرنے کے لیے ہے جو سراپا ذکر ہے، سورة طٰہٰ میں فرمایا : (وَ اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ ) کہ میری یاد کے لیے نماز قائم کیجیے، نماز میں اول سے آخر تک ذکر ہی ذکر ہے نمازی آدمی تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک برابر اللہ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے، اس کی زبان بھی ذکر اللہ میں مشغول رہتی ہے اور دل بھی۔ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان فرمایا (کَانَ یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْ کُلِّ اَحْیَانِہٖ ) (کہ آپ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ ) (رواہ مسلم باب ذکر اللہ تعالیٰ حال الجنابۃ وغیرھا) یوں تو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا ہر عمل اللہ کے ذکر میں شامل ہے لیکن دیگر اعمال ایسے ہیں کہ ہر وقت ان کی ادائیگی کے مواقع نہیں ہوتے اور ذکر اللہ ایسی چیز ہے جو وضو بےوضو ہر وقت حتیٰ کہ ناپاکی کی حالت میں بھی ہوسکتا ہے، البتہ غسل فرض ہو تو تلاوت کرنا ممنوع ہے۔ تلاوت قرآن مجید، تسبیح وتحمید، تکبیر، تہلیل، دعا یہ سب اللہ کا ذکر ہے، درود شریف بھی اللہ کے ذکر میں شامل ہے، اس میں حضور نبی کریم ﷺ کے لیے اللہ سے رحمت کی دعا مانگی جاتی ہے، وہ لوگ مبارک ہیں جو دل سے بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں، اس کی نعمتوں کے شکر گزار ہوتے ہیں، اس کی کتاب کی تلاوت میں مشغول رہتے ہیں اور اس کی حمد وثناء بیان کرتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کی تلاوت کی فضیلت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کی کتاب میں سے ایک حرف پڑھے اس کی وجہ سے اسے ایک نیکی ملے گی اور ہر نیکی دس گنا ہو کر ملے گی۔ (رواہ الترمذی وقال حسن صحیح) اور تسبیح وتحمید وغیرہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر میں ایک بار (سُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ ) کہہ لوں تو یہ مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج نکلتا ہے۔ (رواہ مسلم کما فی المشکوٰۃ ص 200) رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں ترازو میں بھاری ہوں گے، رحمن کو محبوب ہیں اور وہ یہ ہیں (سُبْحَانَ الِلّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ) (رواہ البخاری وھو آخر الحدیث من کتابہ) حضرت جابر ؓ سے رایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے (سُبْحَانَ الِلّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ ) کہا اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگا دیا جائے گا۔ (رواہ الترمذی) حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات کی، انہوں نے فرمایا کہ اے محمد اپنی امت کو میرا سلام کہہ دینا اور بتادینا کہ جنت کی اچھی مٹی ہے اور میٹھا پانی ہے اور وہ چٹیل میدان ہے اور اس کے پودے یہ ہیں (سُبْحَانَ لِلّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ ) (رواہ الترمذی وقال حسن غریب اسناداً ) مطلب یہ ہے کہ جنت میں ہے تو سب کچھ مگر اسی کے لیے ہے جو یہاں سے کچھ کرکے لے جائے، جو عمل سے خالی ہاتھ گیا اس کے لیے تو چٹیل میدان ہی ہے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ایسے درخت پر گزر ہوا جس کے پتے سوکھے ہوئے تھے، آپ نے اس میں اپنی عصا کو مارا تو پتے جھڑنے لگے آپ نے فرمایا کہ (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور سُبْحَان اللّٰہِ اور لاآالٰہَ الاَّ اللّٰہُ اور اللّٰہُ اَکْبَرُ ) بندہ کے گناہوں کو اس طرح گرا دیتے ہیں جیسے اس درخت کے پتے گر رہے ہیں۔ (رواہ الترمذی) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (اَفْضَلُ الذِّکْرِ لاآاِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاَفْضَلُ الدُّعَآءِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ) یعنی سب سے بڑی فضیلت والا ذکر (لاآاِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ ) ہے اور سب سے بڑی فضیلت دعا (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ) ہے۔ (رواہ الترمذی) حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتادوں ؟ میں نے عرض کیا ارشاد فرمائیے ! فرمایا (لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ الاَّ باللّٰہِ ) ہے۔ (رواہ البخاری) جب ذکر اللہ کی اس قدر فضیلت ہے تو اسی میں لگا رہنا چاہیے، ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیں، بہت سے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ کوئی کام کاج نہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد بس بیس سال گزار دیتے ہیں، دکانوں میں لڑکے اور ملازم کام کرتے ہیں اور اتنی بڑی قیمتی زندگی فضول گفتگو میں، اخبار پڑھنے میں، دنیا کے ملکوں کا تذکرہ کرنے میں بلکہ غیبتوں میں گزار دیتے ہیں، یہ بڑے نقصان کا سودا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھے جس میں انہوں نے اللہ کا ذکر کیا تو یہ مجلس ان کے لیے نقصان کا باعث ہوگی، پھر اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو مغفرت فرما دے۔ (رواہ الترمذی) ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اسلام کی چیزیں تو بہت ہیں آپ مجھے ایک ایسی چیز بتلا دیجیے کہ میں اسی میں لگا رہوں، آپ نے فرمایا (لاَ یَزَالُ لِسَانُکَ رَطَبًا مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ) (مشکوٰۃ المصابیح ص 198، الترمذی وغیرہ) (کہ تیری زبان ہر وقت اللہ کی یاد میں تر رہے) ایک اور شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ فضیلت کے اعتبار سے سب سے بڑا عمل کون سا ہے ؟ فرمایا وہ عمل یہ ہے کہ تو دنیا سے اس حال میں جدا ہو کہ تیری زبان اللہ تعالیٰ کی یاد میں تر ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 198 عن الترمذی وغیرہ) حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذکر اللہ کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ بولنے سے دل میں قساوت یعنی سختی آجاتی ہے اور اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور وہی شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔ (رواہ الترمذی) نیز حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر چیز کے لیے صاف کرنے کی ایک چیز ہوتی ہے اور دلوں کو صاف کرنے والی چیز اللہ کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دینے والی کوئی چیز نہیں، صحابہ ؓ نے عرض کیا کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اس قدر جہاد کرے کہ مارتے مارتے اس کی تلوار ٹوٹ جائے تو یہ عمل بھی عذاب سے بچانے میں ذکر اللہ سے بڑھ کر نہیں ہے۔ (رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر کما فی المشکوٰۃ ص 199) آخر میں فرمایا (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ) (اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو) ہر شخص کے اعمال خیر اور اعمال شر کا اس کو علم ہے، وہ اپنی حکمت کے مطابق اصحاب اعمال کا بدلہ دے گا، عمل کرنے والے اس چیز کا مراقبہ کرتے رہیں کہ ہمارے اعمال پیش ہوں گے اور ان کا بدلہ دیا جائے گا۔
Top