Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 49
بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ١ؕ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ
بَلْ هُوَ : بلکہ وہ (یہ) اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ : واضح آیتیں فِيْ صُدُوْرِ : سینوں میں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ ۭ : علم دیا گیا وَمَا يَجْحَدُ : اور نہیں انکار کرتے بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیتوں کا اِلَّا : مگر (صرف) الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
بلکہ یہ قرآن بذات خود بہت سے واضح دلائل کا مجموعہ ہے ان لوگوں کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا، اور ہماری آیتوں کا انکار بےانصاف لوگ ہی کرتے ہیں۔
پھر فرمایا : (بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ) بلکہ بات یہ ہے کہ یہ کتاب یعنی (قرآن شریف) اگرچہ ایک کتاب ہے لیکن بہت سے معجزات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بہت بڑی دلیل ہے جو اپنی قوت و عظمت کی وجہ سے بہت سی واضح دلیلوں کا مجموعہ بنا ہوا ہے اور ان لوگوں کے دلوں میں ہے جن کو علم عطا کیا گیا ہے، (وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ ) (اور ہماری آیتوں کا انکار صرف بےانصاف لوگ ہی کرتے ہیں) باوجودیکہ قرآن معجزہ ہے اور اس کا اعجاز سب پر ظاہر ہے پھر بھی ظالم لوگ انکار پر تلے ہوئے ہیں۔ فائدہ : سورة اعراف میں خاتم النبیین ﷺ کے بارے میں (اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ ) فرمایا ہے، اور یہاں یوں فرمایا ہے کہ آپ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اور آپ کا یہ معجزہ تھا کہ امی ہوتے ہوئے آپ نے علوم کے سمندر بہا دئیے، یہ امتیازی صفت بطور معجزہ آخر تک باقی رہی جو ایک فضل و کمال کی بات ہے۔ بعض علماء نے یوں کہا ہے کہ آخر میں آپ لکھنا پڑھنا جان گئے، ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر صلح نامہ لکھا جا رہا تھا تو اس میں آپ کے کاتب حضرت علی ؓ نے ھٰذا ما قاضیٰ علیہ رسول اللہ ﷺ لکھ دیا مشرکین مکہ کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے یوں کہا کہ محمد رسول اللہ نہ لکھا جائے بلکہ محمد بن عبد اللہ لکھا جائے اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے ہوتے تو کوئی جھگڑے والی بات ہی نہ تھی نہ آپ سے قتال کرتے اور نہ آپ کو بیت اللہ سے روکتے، حضرت علی ؓ سے آپ نے فرمایا کہ محمد بن عبد اللہ لکھ دو ، اس وقت ان پر ادب کی شان غالب تھی اس لیے انہوں نے عذر کردیا، اس پر آنحضرت ﷺ نے ان کے ہاتھ سے ورقہ لے لیا اور خود ھذا ما قاضیٰ علیہ محمد بن عبد اللہ لکھ دیا، صحیح مسلم کی بعض روایات میں اسی طرح سے ہے۔ (صحیح مسلم جلد 2: ص 105) (یہ وہ دستاویز ہے جس پر اللہ کے رسول ﷺ نے معاہدہ کیا ہے۔ ) لیکن بعض علماء نے فرمایا کہ آپ نے حضرت علی ؓ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کو لفظ محمد بن عبد اللہ لکھنے کا حکم دیا اور اس حکم فرمانے کو راوی نے اس طرح تعبیر کیا کہ آپ نے لکھ دیا۔ درحقیقت یہ تاویل نہ بھی کی جائے تب بھی آپ کی طرف کتاب کی نسبت کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے امی ہونے کی صفت باقی نہیں رہی کیونکہ بطور معجزہ کوئی چیز لکھ دینا دوسری بات ہے اور باقاعدہ پوری طرح کاتب ہونا یہ دوسری بات ہے بلکہ کتاب نہ جانتے ہوئے آپ کا لکھ دینا یہ مستقل معجزہ ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ آپ بعد میں کتابت سے واقف ہوگئے تھے اس میں اس سے زیادہ فضیلت نہیں ہے کہ آپ نے امی ہوتے ہوئے بھی لکھ دیا۔
Top