Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 61
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ١ۚ فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ
وَلَئِنْ : اور البتہ اگر سَاَلْتَهُمْ : تم پوچھو ان سے مَّنْ خَلَقَ : کس نے بنایا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَسَخَّرَ : اور مسخر کیا (کام میں لگایا) الشَّمْسَ : سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند لَيَقُوْلُنَّ : وہ ضرور کہیں گے اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پھر کہاں يُؤْفَكُوْنَ : وہ الٹے پھرے جاتے ہیں
اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کیا تو ضرور جواب دیں گے کہ اللہ نے، سو وہ پھر کہاں الٹے جا رہے ہیں۔
توحید کے دلائل جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غیر اللہ کو بھی شریک کرتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ اے نبی ﷺ اگر آپ ان لوگوں سے دریافت کریں کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کیا اور انہیں ایک طریقہ خاص پر کس نے کام میں لگایا تو یہ لوگ اس کا یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ کیا ہے، جب اقرار بھی ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ نے ہی کیا ہے تو پھر کہاں الٹے پاؤں جا رہے ہیں، یعنی توحید کو چھوڑ کر شرک کو کیوں اختیار کررہے ہیں ؟ خالقیت میں جس طرح اللہ کا کوئی شریک نہیں اسی طرح صفت رزاقیت میں بھی کوئی شریک نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے رزق وسیع کردے یعنی رزق میں فراخی دیدے اور جس کے لیے چاہے رزق تنگ کردے، بہت سے لوگ بڑی بڑی محنتیں کرتے ہیں، مشقتیں اٹھاتے ہیں مگر ان کا رزق تنگ ہی رہتا ہے، اور بہت سے لوگ کچھ بھی نہیں کرتے انہیں بہت زیادہ وسعت کے ساتھ رزق ملتا ہے، اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ رزق سے زیادہ کسی کو کچھ نہیں ملتا۔ اس کے بعد سبب رزق کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اگر آپ ان سے سوال کریں کہ بتاؤ آسمان سے کس نے پانی اتارا ؟ پھر اس پانی کے ذریعہ کس نے زمین کو زندہ کردیا جبکہ زمین مرچکی تھی یعنی خشک ہونے کی وجہ سے کوئی چیز اگانے کے قابل نہ تھی، تو یہی جواب دیں گے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی نے کیا ہے۔ (قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ ) (آپ فرما دیجیے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے) پیدا بھی اسی نے فرمایا اور نعمتیں بھی اس نے دیں رزق بھی وہی دیتا ہے زمین بھی وہی زندہ فرماتا ہے جب وہی فاعل مختار ہے، خالق ومالک ہے اور رزاق بھی وہی ہے تو پھر عبادت بھی صرف اسی کی کرنا لازمی ہے، یہ ان سب باتوں کا اقرار کرتے ہیں لیکن عقل سے کام نہیں لیتے، غور و فکر نہیں کرتے، تھوڑے سے ہی افراد ہیں جو سمجھ سے کام لیتے ہیں، اسی لیے فرمایا (بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ )
Top