Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 122
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا١ۙ وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِذْ : جب ھَمَّتْ : ارادہ کیا طَّآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنْكُمْ : تم سے اَنْ : کہ تَفْشَلَا : ہمت ہاردیں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّهُمَا : ان کا مددگار وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن
جب ارادہ کیا دو جماعتوں نے تم میں سے کہ بزدل ہوجائیں اور اللہ ان کا ولی تھا اور اللہ پر بھروسہ کریں مومن بندے۔
غزوہ احد کے موقعہ پر صحابہ کرام ؓ سے مشورہ : ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ احد پیش آیا۔ مشرکین مکہ کو غزوۂ بدر میں چونکہ بہت بڑی شکست ہوئی تھی جس میں تین سو تیرہ نہتے مسلمان دشمن کی تین گنا تعداد پر غالب آئے اور دشمن کے ستر آدمی مقتول ہوئے اور ستر کو قیدی بنا کر مدینہ منورہ لایا گیا اس لیے قریش مکہ کو بدلہ لینے کی بہت بڑی فکر تھی۔ لہٰذا آپس میں خوب زیادہ چندہ کیا اور قریش آپس میں مجتمع ہو کر رسول اللہ ﷺ سے جنگ کرنے کے لیے مکہ معظمہ سے نکلے قریش مکہ اپنے اموال اور فوج اور سپاہ کو لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو احد پہاڑ کے قریب پڑاؤ ڈال لیا۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے حضرات صحابہ سے مشورہ کیا آپ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں رہ کر ہی مقابلہ کیا جائے باہر نہ نکلیں لیکن وہ مسلمان جو گزشتہ سال غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ہم شہر سے باہر نکلیں گے اور احد جا کر ہی ان سے لڑیں گے ان حضرات کا اندازہ تھا کہ جس طرح مسلمان سال گزشتہ بدر میں دشمن کے مقابلہ میں فتح یاب ہوچکے ہیں اس مرتبہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ضرور غالب ہوں گے۔ یہ حضرات برابر اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کو باہر نکلنے پر آمادہ کرلیا آنحضرت سرورعالم ﷺ نے تیاری فرما لی۔ زرہ پہن لی اور خود (لوہے کی ٹوپی) اوڑھ لی آپ مشورہ کی وجہ سے آمادہ تو ہوگئے لیکن ہتھیار پہننے سے پہلے آپ نے فرمایا دیا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں ایک مضبوط زرہ کے اندر ہوں جس کی تعبیر میں نے یہ دی کہ اس سے مدینہ منورہ مراد ہے اور میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میری تلوار کچھ کند ہوگئی اس کی تعبیر میں نے یہ دی کہ تمہارے اندر کچھ شکستگی ہوگی اور میں نے یہ بھی خواب دیکھا کہ ایک بیل کو ذبح کیا جا رہا ہے اور وہ بھاگ رہا ہے۔ مطلب اس خواب کے بیان کرنے کا یہ تھا کہ مدینہ منورہ ہی کے اندر رہنا چاہیے اور یہ کہ جنگ ہونے کی صورت میں مسلمانوں میں شکستگی ہوگی۔ بعد میں بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ ہماری تاریخ یہ ہے کہ جب کبھی اندر رہتے ہوئے جنگ لڑی ہے تو ہم کامیاب ہوئے ہیں اور جب کبھی باہر نکل کر جنگ کی ہے تو دشمن فتح یاب ہوا ہے۔ لہٰذا رائے یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے اندر ہی رہیں باہر نہ نکلیں جن حضرات نے خوب جماؤ کے ساتھ باہر نکلنے کا مشورہ دیا تھا بعد میں ان کو بھی ندامت ہوئی جب آپ کی خدمت میں دوسرا مشورہ پیش کیا اور عرض کیا کہ آپ کی جیسی رائے ہو آپ اس پر عمل فرمائیں تو آپ نے فرمایا کسی نبی کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ سامان جنگ سے آراستہ ہوجائے اور دشمن کی طرف نکلنے کا حکم دے دے تو وہ قتال کیے بغیر واپس ہوجائے۔ میں نے تم کو پہلے اس امر کی دعوت دی تھی کہ مدینہ ہی میں رہیں لیکن تم لوگوں نے نہیں مانا پس اب اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور دشمن سے مڈ بھیڑ ہوجائے تو جماؤ کے ساتھ جنگ کرنا۔ اور اللہ نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل کرو۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ مسلمانوں کو لے کر احد کی طرف تشریف لے چلے اس وقت آپ کے ساتھ ایک ہزار کی نفری تھی اور دشمن کی تعداد تین ہزار تھی۔ احد جاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ایک جگہ قیام کیا تو رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول تین سو آدمیوں کو لے کر واپس چلا گیا۔ لہٰذا مسلمانوں کی تعداد سات سو رہ گئی۔ عبداللہ بن ابی جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس ہوگیا تو انصار کے دو قبیلے بنی سلمہ اور بنی حارثہ کی نیت بھی ڈانواں ڈول ہوگئی اور ان کے اندر بھی بزدلی کا اثر ہونے لگا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو استقامت دی اور یہ بھی لشکر اسلام کے ساتھ ٹھہر گئے اسی کو آیت بالا میں فرمایا : (اِذْ ھَمَّتْ طَّآءِفَتٰنِ مِنْکُمْ اَنْ تَفْشَلَا وَ اللّٰہُ وَلِیُّھُمَا وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ) (اور جب ارادہ کیا دو جماعتوں نے تم میں سے کہ بزدل ہوجائیں اور اللہ ان کا ولی ہے اور اللہ پر بھروسہ کریں مومن بندے) ۔ حضرت سرور دو عالم ﷺ احد کے دامن میں پہنچ گئے اور وہاں ایک گھاٹی میں نزول فرمایا آپ نے اور آپ کے لشکر نے احد کی طرف پشت کرلی تاکہ احد پیچھے رہے اور دشمن سے احد کے سامنے میدان میں قتال کیا جاسکے۔ وہیں ایک پہاڑی پر پچاس صحابہ کو مقرر فرما دیا اور ان کا امیر حضرت عبداللہ بن جبیر کو بنا دیا اور ان حضرات سے فرمایا کہ تم لوگ اسی پہاڑ پر ثابت قدم رہنا۔ فتح ہو یا شکست تم یہاں سے مت ٹلنا۔ اگر تم یہ دیکھو کہ ہم کو پرندے بھی بوٹی بوٹی کر کے لے اڑیں تب بھی اس جگہ سے نہ جانا ان حضرات کا کام یہ تھا کہ دشمن کے لشکروں کو مقررہ پہاڑی سے نیزے مارتے رہیں تاکہ وہ ان کی طرح سے گزرتے ہوئے لشکر اسلام پر حملہ نہ کردیں۔ رسول اللہ ﷺ دو زرہیں پہنے ہوئے تھے۔ اور جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے ہاتھ میں تھا۔ آپ نے اپنے لشکر کی ترتیب دی اور ان کے ٹھکانے مقرر فرمائے، میمنہ اور میسرہ کی تعیین فرمائی جس کو آیت بالا میں اس طرح بیان فرمایا : (وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِکَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ) (اور جب آپ اپنے گھر سے صبح کے وقت نکلے کہ مسلمانوں کو قتال کے لیے مقامات بتا رہے تھے) جب جنگ شروع ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور فتحیاب فرمایا لیکن پھر یہ ہوا کہ جن پچاس افراد کو تیر اندازی کے لیے ایک پہاڑی پر مامور فرما دیا تھا انہوں نے جب فتح و ظفر دیکھی تو ان میں آپس میں اختلاف ہوگیا ان میں سے بعض صحابہ کہنے لگے کہ اب یہاں ٹھہرنے کی ضرورت کیا ہے اب تو ہم فتحیاب ہو ہی چکے لہٰذا اس جگہ کو چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں، اور بعض صحابہ نے فرمایا کہ جو بھی صورت ہو ہمیں جم کر رہنے کا حکم ہے، جماعت کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے کچھ ساتھی وہیں جمے رہے اور اکثر حضرات نے جگہ چھوڑ دی اور مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے۔ دشمن کے پاؤں اکھڑ چکے تھے، اور وہ شکست کھا کر راہ فرار اختیار کرچکا تھا لیکن جب اس نے یہ دیکھا کہ تیر انداز پہاڑی سے اتر چکے ہیں تو پلٹ کر پھر جنگ شروع کردی، اب صورت حال بدل گئی مسلمانوں کو شکست ہوگئی۔
Top