Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو مت کھاؤ سود چند در چند بڑھا کر، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
سود کھانے کی ممانعت اور مغفرت خداوندی کی طرف بڑھنے میں جلدی کرنے کا حکم ابھی غزوہ احد کا واقعہ پورا مذکور نہیں ہوا اس کا بہت سا حصہ باقی ہے۔ درمیان میں بعض گناہوں سے خصوصی طور پر بچنے کا حکم فرمایا اور تقویٰ کا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم فرمایا اور بعض طاعات کی ترغیب دی اور اہل اطاعت کے اخروی بدلہ کا تذکرہ فرمایا۔ غزوہ احد میں مسلمانوں سے جو حکم کی خلاف ورزی ہوگئی تھی۔ جس کا ذکر آیت شریفہ (اَنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا) میں فرمایا ہے یہاں عمومی طور پر گناہوں سے بچنے اور اطاعت میں لگنے کا حکم فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ گناہ عمومی طور پر مصیبتوں کو لانے والے ہیں اور اطاعات مصائب کو دور کرنے کا سبب ہیں اور آخرت میں مغفرت اور جنت ملنے کا ذریعہ ہیں خاص کر سود لینے کی ممانعت فرمائی۔ یہ گناہ ایسا ہے جو انسان کو خالص دنیا دار بنا دیتا ہے۔ سود خوروں کے دلوں میں تقویٰ اور خوف باقی نہیں رہتا مال زیادہ ہوجانا ہی ان کا وظیفہ زندگی بن جاتا ہے۔ اور مخلوق پر رحم کھانے کا ان میں جذبہ رہتا ہی نہیں۔ یہ جو فرمایا ہے کہ چند در چند سود نہ کھاؤ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ تھوڑا بہت کھانا جائز ہے۔ کیونکہ سود کا ایک درہم لینا بھی حرام ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سود کا ایک درہم بھی کوئی شخص کھاتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ وہ سود کا ہے تو وہ چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 246: ازاحمد و دارقطنی) جو لوگ سود پر رقمیں دیتے ہیں عموماً ان کے اصل مال سے سود کا مال بڑھ جاتا ہے۔ اور ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ماہانہ مقررہ فیصد پر رقم قرض دیتے ہیں پھر جب وقت پر ادا نہیں ہوتا تو اصل اور سود دونوں پر سود لگا دیتے ہیں اور جب تک اصل رقم اور سود ادا نہ ہوگا ہر ماہ سود بڑھتا ہی رہے گا۔ اصل پر اور سود پر برابر سود کا اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس طرح سے اضعافاً مضاعفہ (چند در چند گنا) ہوتا چلا جاتا ہے۔ سود خوروں میں جو طریقہ مروج ہے آیت کریمہ میں اس کا ذکر فرما دیا ہے۔ کوئی سود خور فاسق یہ نہ سمجھ لے کہ تھوڑا بہت سود ہو تو جائز ہے (العیاذ باللّٰہ من ذالک) سود خوری کا خصوصی ذکر اس جگہ غزوہ کے ذیل میں بیان فرمانا اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ سود خور کا جہاد میں حوصلہ نہیں ہوسکتا وہ اپنے مال کی وجہ سے ایمان کے تقاضے پورا کرنے سے عاجز رہے گا سود کے بارے میں جو وعیدیں حدیث شریف میں وارد ہوئیں ان کا تذکرہ آیت کریمہ (اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ ) کے ذیل میں گزر چکا ہے اور بھی معلومات متعلقہ سود وہاں لکھی جا چکی ہیں۔ سود سے بچنے کا حکم دینے کے بعد تقویٰ کا حکم فرمایا اور اس کو کامیابی کا سبب بتایا پھر دوزخ کی آگ سے بچنے کا حکم دیا۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے ہر گناہ دوزخ کی طرف کھینچنے والا ہے۔ گناہوں سے بچنا ہی دوزخ سے بچنا ہے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ (اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ ) یعنی دوزخ کی آگ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ اصل مقام کافروں ہی کا ہے۔ مسلمانوں کا گناہوں میں مبتلا ہو کر اس مقام میں جانا نہایت شرم کی بات ہے دشمن کی جگہ تو یوں بھی نہیں جانا چاہیے چہ جائیکہ عذاب کی جگہ پہنچنے کی راہ ہموار کی جائے اور عذاب بھی معمولی نہیں بلکہ سخت در سخت ہے۔ ان مومن مخلص بندوں کی حرص کریں جو جنت ہی کے کاموں میں لگے رہتے ہیں اور جنت متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے جیسا کہ انہیں آیات میں مذکور ہے تقویٰ اختیار کرکے جنت میں جائیں جو مومنین کا اصل مقام ہے گناہوں میں مبتلا ہو کر دوسری راہ کیوں اختیار کریں۔
Top