Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 18
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ
شَهِدَ : گواہی دی اللّٰهُ : اللہ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والے قَآئِمًا : قائم (حاکم) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ نے گواہی دی کہ بلاشبہ کوئی معبود نہیں اس کے سوا اور فرشتوں نے اور اہل علم نے، وہ انصاف کے ساتھ قائم ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہی، وہ غلبہ والا ہے حکمت والا ہے،
توحید پر گواہی روح المعانی صفحہ 104: ج 3 اور معالم التنزیل صفحہ 285: ج 1 میں کلبی سے نقل کیا ہے کہ شام کے علماء یہود میں سے دو عالم مدینہ منورہ آئے انہوں نے مدینہ کو دیکھا ان میں سے ایک دوسرے سے کہنے لگا کہ یہ شہر تو ہو بہو وہی معلوم ہوتا ہے جس کے بارے میں ہم نے پڑھا ہے کہ نبی آخر الزمان ﷺ اس شہر میں قیام پذیر ہوں گے جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کو انہیں صفات کے ساتھ پہچان لیا جو انہیں پہلے سے معلوم تھیں انہوں نے دریافت کیا کہ آپ محمد ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں محمد ہوں ! پھر سوال کیا کہ آپ احمد ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں احمد ہوں ! کہنے لگے کہ ہم ایک شہادت کے بارے میں آپ سے دریافت کرتے ہیں اگر آپ نے ہم کو بتادیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور آپ کی تصدیق کریں گے، آپ نے فرمایا تم دونوں سوال کرو، کہنے لگے ہمیں یہ بتائیے کہ اللہ کی کتاب میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ اس کو سن کر ان دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی گواہی کا ذکر ہے کہ اس نے اپنے معبود لا شریک لہ ہونے کی گواہی دی، اور فرشتوں کی گواہی کا بھی ذکر ہے جو اللہ کے برگزیدہ اور مقرب بندے ہیں ہر طرح گناہوں سے معصوم اور محفوظ ہیں۔ ان میں سے بہت سے دربار الٰہی کے حاضرین بھی ہیں اور تمام فرشتوں کی معرفت بھی حاصل ہے، پھر اہل علم کی گواہی کا ذکر فرمایا کہ ان حضرات نے بھی اللہ کے معبود وحدہ لا شریک ہونے کی گواہی دی۔ اہل علم کون ہیں ؟ اہل علم سے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور وہ تمام حضرات مراد ہیں جنہوں نے حضرات انبیاء (علیہ السلام) کا اتباع کیا۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہے دلائل قطعیہ عقلیہ سے انہوں نے اللہ کو پہچانا اور اسے اپنی ذات وصفات میں اور معبود حقیقی ہونے میں وحدہ لا شریک لہ، ہونے میں خوب اچھی طرح سے جانا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بہت سے لوگ جو اللہ کی مخلوقات کا تجزیہ اور تحلیل کرنے میں مصروف ہیں اور کائنات میں طرح طرح کی ریسرچ کرتے ہیں۔ حیوانات، نباتات، جمادات کے احوال جاننے کے لیے محنتیں کرتے ہیں۔ ان میں اہل علم کہنے کے لائق وہی لوگ ہیں جو مخلوق کے ذریعہ خالق کی معرفت حاصل کرنے میں عمریں خرچ کرتے ہیں اور جو خالق جل مجدہ، کے منکر ہیں یہ لوگ اہل علم نہیں ہیں۔ بڑی بڑی ریسرچ کرتے ہوئے بھی جہالت میں مبتلا ہیں۔ اسی کو سورة زمر میں فرمایا۔ (قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَاْمُرُوْنَنِیْْ اَعْبُدُ اَیُّہَا الْجَاھِلُوْنَ ) (آپ فرما دیجیے کیا اللہ کے سوا کسی کی عبادت کا تم مجھے حکم دیتے ہو اے جاہلو ! ) مخاطبین کو جاہل فرمایا حالانکہ وہ اس زمانہ کے اعتبار سے فصاحت و بلاغت میں بہت زیادہ آگے بڑھے ہوئے تھے۔ قَآءِمًام بالْقِسْطِ پھر فرمایا (قَآءِمًا بالْقِسْطِ ) کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کاملہ کے ساتھ عدل کے ساتھ قائم ہے۔ اس کے سب احکام اور فیصلے انصاف کے ساتھ ہیں مخلوق کی جزاء اور سزا کے سب فیصلے جو دنیا میں ہیں اور آخرت میں ہوں گے سب میں انصاف ملحوظ ہے۔ کسی پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں ہے اور نہ ہوگا جو لوگ ظلم اور انصاف کے معانی نہیں سمجھتے وہی اشکال کرتے ہیں۔ اللہ کے احکام اور قضایا میں کوئی ظلم نہیں۔ پھر فرمایا (لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) اس میں بطور تاکید ابتدائی آیت کے مضمون کا اعادہ فرمایا ہے۔ شروع آیت میں توحید بیان فرمائی اور اس آیت میں بھی اور دو صفات کا ذکر فرمایا کہ وہ عزیز ہے یعنی زبردست ہے اور سب پر غالب ہے اور حکمت والا ہے جو کچھ مخلوق میں تصرفات ہوتے ہیں وہ سب اس کی حکمت کے مطابق ہیں۔
Top