Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 181
لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ١ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
لَقَدْ سَمِعَ : البتہ سن لیا اللّٰهُ : اللہ قَوْلَ : قول (بات) الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے قَالُوْٓا : کہا اِنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ فَقِيْرٌ : فقیر وَّنَحْنُ : اور ہم اَغْنِيَآءُ : مالدار سَنَكْتُبُ : اب ہم لکھ رکھیں گے مَا قَالُوْا : جو انہوں نے کہا وَقَتْلَھُمُ : اور ان کا قتل کرنا الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّنَقُوْلُ : اور ہم کہیں گے ذُوْقُوْا : تم چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : جلانے والا
بلاشبہ اللہ نے سن لی ان کی بات جنہوں نے کہا ہے کہ بیشک اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں، عنقریب ہم ان کی بات کو لکھ لیں گے اور جو انہوں نے نبیوں کے ناحق خون کیے ہیں اس کو بھی لکھ لیں گے اور ہم کہیں گے کہ چکھ لو جلنے کا عذاب
یہود کی بیہودگی اور ان کے لیے عذاب کی و عید لباب النقول صفحہ 61 میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک دن یہودیوں کے بیت المدارس (یعنی مدرسہ) میں تشریف لے گئے وہاں ایک شخص کے پاس یہودی جمع تھے جس کا نام فخاص تھا فخاص نے کہا اے ابوبکر ہمیں اللہ کی طرف کوئی محتاجی نہیں اور اللہ ہمارا محتاج ہے اگر وہ غنی ہوتا تو ہم سے قرض کیوں مانگتا، تمہارا نبی یہ بتاتا ہے کہ اللہ قرض طلب کرتا ہے اس پر حضرت ابوبکر ؓ کو غصہ آگیا اور فخاص کے چہرے پر طمانچہ مار دیا۔ فخاص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچ گیا اور کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ ! دیکھو تمہارے ساتھی نے میرے ساتھ کیا کیا۔ آپ نے ابوبکر سے فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس نے بہت سخت بات کہی ہے۔ یہ کہتا ہے کہ اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اس پر فخاص منکر ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ مروی ہے کہ جب آیت کریمہ (مَنْ ذَالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً ) نازل ہوئی تو یہودی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ! تمہارا رب تو فقیر ہوگیا، وہ بندوں سے مانگتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے آیت (لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ یہ تو مشہور ہی ہے کہ اعتراض کرنے والا اندھا ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے زکوٰۃ صدقات دینے کا جو حکم فرمایا پھر اس پر آخرت میں ثواب دینے کا وعدہ فرمایا اس کی مہربانی کے طور پر قرض سے تعبیر فرما دیا کہ یہاں میرے بندوں پر خرچ کر دو اور اس کا اجر وثواب میں تم کو آخرت میں دے دوں گا، سارے بندے اور بندوں کے سارے مال سب اللہ ہی کی ملکیت ہیں وہ اگر سارا مال خرچ کرنے کا حکم دیتا اور بالکل کچھ بھی ثواب نہ دیتا تو اسے اس کا بھی اختیار ہے وہ تو بےغرض اور بےحاجت ہے غنی ہے مغنی ہے بےنیاز ہے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں اس نے ابتلاء اور امتحان کے طور پر بندوں کو حکم دیا کہ بندوں پر خرچ کریں۔ اور اپنے پاس سے دینے کا وعدہ فرما لیا۔ یہودیوں نے اس کرم اور فضل اور مہربانی کو نہ سمجھا اللہ نے اپنے دئیے ہوئے مال میں سے حکم کے مطابق خرچ کرنے کا نام قرض رکھ دیا اور ثواب کا وعدہ فرما لیا اور قرآن مجید کی اس تعبیر پر اعتراض کر بیٹھے اور کہنے لگے کہ اللہ فقیر ہوگیا ہم سے مانگتا ہے لہٰذا ہم مالدار ہوئے اور وہ فقیر ہوا (العباذ باللہ) اللہ جل شانہٗ نے فرمایا کہ انہوں نے جو کہا ہے اس کو ہم لیں گے یعنی صحائف اعمال میں اس کو درج کرا دیں گے اور ان کی یہ بات محفوظ رہے گی، جس پر ان کو سزا ملے گی۔ یہودیوں کی اس بات میں اللہ جل شانہٗ کے بارے میں بد عقیدہ ہونے کا اظہار ہے اور قرآن کا استہزاء ہے اور ان کا ایک یہی قول باعث عذاب و عقاب نہیں ہے بلکہ وہ تو اور بھی بہت سے بری حرکتیں کرچکے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے ناحق انبیاء کرام (علیہ السلام) کو قتل کیا، یہ کام کیا تو تھا ان کے آباؤ اجداد نے لیکن موجودہ یہودیوں کی اس پر کوئی نکیر نہیں اور اپنے آباؤ اجداد کے اس عمل سے راضی ہیں لہٰذا یہ بھی قیامت کے دن ان کے اعمال ناموں میں لکھا ہوا ملے گا۔ کافرانہ عقیدوں اور حرکتوں کی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوں گے اور کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھ لو اور یہ عذاب تمہارے اعمال کی وجہ سے ہے جو تم نے دنیا میں کیے اور آخرت میں بھیج دئیے۔ جو کچھ بھی عذاب ہے تمہارے اپنے کیے کا پھل ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم فرمانے والا نہیں ہے۔ اس کے بعد یہودیوں نے ایک اور بات نقل فرمائی پھر اس کا جواب دیا، یہودیوں نے یہ کہا کہ اے محمد ! ﷺ ہم تم پر کیسے ایمان لائیں، ہمیں تو اللہ نے تورات میں یہ حکم دیا ہے اور تاکید فرمائی ہے کہ جو بھی کوئی شخص رسالت اور نبوت کا مدعی ہو ہم اس کی تصدیق نہ کریں جب تک کہ وہ اللہ کی بار گاہ میں قربانی پیش نہ کرے اور یہ قربانی ایسی ہو جسے آگ جلا کر بھسم کر دے یہ آگ کا جلانا دلیل اس بات کی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی قبول ہوگئی اور یہ شخص جس نے قربانی پیش کی ہے واقعی اللہ کا رسول ہے، اللہ جل شانہٗ نے فرمایا کہ آپ جواب میں فرما دیجیے کہ تم سے پہلے کثیر تعداد میں انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لائے ان کے پاس کھلے کھلے معجزات تھے اور تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ قربانی پیش کی جائے جسے آگ جلا دے انہوں نے تمہارے سامنے یہ بھی کیا قربانیاں پیش کیں جنہیں آگ نے جلایا، تم تو اس پر بھی ایمان نہ لائے اور نہ صرف یہ کہ ایمان نہ لائے بلکہ تم نے ان کو قتل کردیا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو انبیاء سابقین پر ایمان لے آتے بات یہ ہے کہ تمہیں ایمان لانا نہیں ہے بطور کٹ حجتی حیلے بہانے تراشنے کے لیے ایسی باتیں کہتے ہو۔ (روح المعانی صفحہ 141 تا 144: ج 4)
Top