Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں،
عقلمندوں کی صفات اور ان کی دعائیں ان آیات میں اول تو یہ ارشاد فرمایا کہ آسمانوں کو اور زمین کو جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے کا جو نظام رکھا ہے جس کے مطابق رات اور دن آگے پیچھے آتے رہتے ہیں اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ یعنی یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ ان کا پیدا فرمانے والا قادر مطلق ہے، خالق ہے، حکیم ہے، یہ نشانیاں ایسی ہیں کہ عقل والے ان کو دیکھتے ہیں اور ان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب یہ جو کچھ آپ نے پیدا فرمایا ہے بےکار، عبث اور لایعنی نہیں ہے۔ ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں اور تو ہمیں عذاب دوزخ سے بچا دینا۔ درمیان میں ان عقل والوں کی یہ صفت بیان فرمائی کہ یہ لوگ کھڑے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ زبان سے اور دل سے اللہ کو یاد کرتے ہیں اللہ کی ذات وصفات کا تذکرہ کرنا اس کی تکوین و تخلیق بیان کرنا اس کی قدرت اور حکمت کا تذکرہ کرنا یہ سب ذکر اللہ میں داخل ہے جن لوگوں کو اللہ کی معرفت حاصل ہوجائے وہی حقیقت میں عقل والے ہیں اور ان کے عقل مند اور عارف ہونے کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ بیٹھے ہوں، لیٹے ہوں، کھڑے ہوں چل رہے ہوں کسی حال میں ذکر اللہ سے غافل نہیں ہوتے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کسی جگہ پر بیٹھے جس میں انہوں نے اللہ کو یاد نہ کیا اور اپنے نبی پر درود نہ بھیجا تو یہ مجلس ان کے لیے نقصان کا باعث ہوگی، اللہ چاہے تو ان کو عذاب دے اور چاہے تو مغفرت فرمائے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جو شخص کسی جگہ میں لیٹا اس میں اللہ کو یاد نہ کیا تو اس کا لیٹنا اللہ کی طرف سے اس کے لیے نقصان کا باعث ہوگا اور جو شخص کسی جگہ میں چلا اس نے اس چلنے کے دوران اللہ کو یاد نہ کیا تو یہ چلنا اس کے لیے اللہ کی طرف سے نقصان کا باعث ہوگا۔ (التر غیب 409: ج 2) درحقیقت اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی اس عالم کی روح ہے جب تک اس دنیا میں ایک مرتبہ بھی اللہ اللہ کہا جاتا رہے گا اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی۔ (کمارواہ مسلم صفحہ 84: ج 1) آج کل بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں عقلمند سمجھا جاتا ہے ان لوگوں نے اپنے طور پر سائنس کی معلومات میں اور دیگر امور کی معرفت حاصل کرنے میں بہت محنت کی ہے۔ لیکن ان معلومات کے ذریعہ انہوں نے خالق کائنات جل مجدہ کو نہیں پہچانا۔ ان میں بہت سے تو خالق جل مجدہ کے وجود ہی کے منکر ہیں اور جو لوگ اسے موجود مانتے ہیں، وہ بھی اس کی صفات جلال و جمال کو نہیں ماتنے۔ اور اس کو تکوینی حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اس کے مظاہر قدرت سے اس کی معرفت حاصل کرنے کی بجائے مادہ ہی کو یا طبیعت ہی کو سب کچھ مانتے ہیں۔ اور یوں کہتے ہیں کہ طبیعت خود ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئی یہ ان لوگوں کی اپنے خالق کی معرفت سے محرومی ہے، پھر انہیں یہ احساس نہیں کہ ہم کیوں پیدا ہوئے اور اس دنیا کے بعد ہمارا کیا بنے گا، اور یہ کہ ہمارے خالق نے زندگی گزارنے کا جو نظام بھیجا ہے وہ ہم پر قبول کرنا فرض ہے، ان کے علوم اور تجربات سب اسی دنیا تک ہیں۔ (یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غٰفِلُوْنَ ) اولو الالباب (عقل والے لوگوں) کی جو دعائیں ذکر فرمائی ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے۔ (رَبَّنَآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَہٗ ) (کہ اے ہمارے رب بلاشبہ آپ جسے دوزخ میں داخل فرمائیں اسے رسوا فرمائیں گے) اور یہ ایسی رسوائی ہے جس سے بڑھ کر کوئی رسوائی نہیں۔ دوزخ کا عذاب (عَذَابٌ مُّھِیْنٌ) یعنی ذلیل کرنے والا ہے اور وہاں کی رسوائی سے بڑھ کر کوئی رسوائی نہیں۔ تمام اولین و آخرین کے سامنے ذلیل ہونا بہت بڑی رسوائی ہے لوگ یہ تو سوچتے ہیں کہ دنیا میں رسوائی نہ ہو اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہنے کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔ (وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَخْزَی وَھُمْ لاَ یُنْصَرُوْنَ )
Top