Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 197
مَتَاعٌ قَلِیْلٌ١۫ ثُمَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ
مَتَاعٌ : فائدہ قَلِيْلٌ : تھوڑا ثُمَّ : پھر مَاْوٰىھُمْ : ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : دوزخ وَبِئْسَ : اور کتنا برا الْمِھَادُ : بچھونا ( آرام کرنا)
یہ تھوڑا سا نفع ہے۔ پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ برا بچھونا ہے،
کافروں کے احوال و اموال دیکھ کر دھوکہ نہ کھائیں گزشتہ آیت میں اہل ایمان کا اجر وثواب بتایا ہے اہل ایمان میں تنگدست فقراء اور مساکین بھی ہوتے ہیں۔ اور دنیاوی احوال و اموال کے اعتبار سے ان میں ایک گونہ کمزوری ہوتی ہے۔ اس لیے ان کی تسلی کے لیے فرمایا کہ اہل کفر کو جو دنیا میں ادھر ادھر آنے جانے اور اموال کمانے کی قدرت اور وسعت دی گئی ہے یہ کوئی قابل رشک چیز نہیں ہے ان لوگوں کی خوشحالی تمہیں دھوکہ میں نہ ڈالے یہ تو چند دن کی بہار ہے اس کے بعد ان کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔ عذاب بھی معمولی نہیں بلکہ جہنم کا عذاب ہے جو آگ ہی آگ ہے ایسی خوشحالی پر کیا رشک کرنا جس کے کچھ عرصہ کے بعد آگ کے دائمی عذاب میں داخل ہونا پڑے۔ اسباب النزول صفحہ 134 میں لکھا ہے کہ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی یہ لوگ خوشحال تھے تجارت کرتے تھے اور دنیا کے سازو سامان سے منتفع ہوتے تھے۔ بعض اہل ایمان کے منہ سے نکل گیا کہ اللہ کے دشمن تو اچھے حال میں ہیں اور ہم بھوک اور مشقت سے ہلاک ہو رہے ہیں اس پر آیت لَایَغُرَّنَّکَ آخر تک نازل ہوئی۔ جہنم کے بارے میں کہیں (بِءْسَ الْمَصِیْرُ ) اور کہیں (بِءْسَ الْمِھَادُ ) فرمایا اور کہیں دوسرے الفاظ میں اس کا برا ٹھکانا ہونا بتایا۔ یہاں (بِءْسَ الْمِھَادُ ) برا بچھونا جو فرمایا ہے سیاق کلام کے اعتبار سے نہایت ہی برمحل ہے۔ کیونکہ جو لوگ اصحاب اموال ہوتے ہیں دنیاوی چیزوں سے منتفع اور متمتع ہونے کے جو ان کے طریقے ہیں، ان میں جہاں عمدہ کھاناپینا اور لباس فاخرہ ہوتا ہے وہاں بسترے بھی عمدہ اور نرم ہوتے ہیں۔ آیت شریفہ میں بتادیا کہ ان کے یہاں کے بستروں کو نہ دیکھو ان کے اصلی اور دائمی بستر پر نظر کرو جو دوزخ کی آگ کا ہوگا، وہاں آرام کا نام نہیں اور نیند کا گمان نہیں۔ نزول قرآن کے وقت سفر کے ذرائع یہی چو پائے تھے گھوڑے، اونٹ خچر وغیرہ۔ دور حاضر میں سیارے اور طیارے ہیں جن سے تقلب کا مفہوم بہت زیادہ واضح ہے ایک شخص ایک ہی دن میں ایشیا میں بھی ہے اور یورپ میں بھی دوسرا شخص امریکہ جاتا ہے پھر شام تک واپس بھی آجاتا ہے، ایشیا والوں کے لیے افریقہ اور آسٹریلیا ایسے ہیں جیسے کبھی دو تین میل کی مسافت تک جا کر واپس آجاتے تھے۔ یہ تقلب کا بہت بڑا مصداق ہے، قرآن مجید میں جو لفظ تقلب ہے قیامت تک آنے والی سواریوں کے لیے شامل ہے۔ سورة مومن میں بھی اس مضمون کو بیان فرمایا (مَا یُجَادِلُ فِیْ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلاَ یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِی الْبِلاَدِ ) (نہیں جھگڑتے ہماری آیات کے بارے میں مگر وہی لوگ جنہوں نے کفر کیا۔ سو دھوکہ میں نہ ڈالے آپ کو شہروں میں ان کا چلنا پھرنا) ۔
Top