Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 63
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِالْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ منہ موڑ جائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِالْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والوں کو
پھر اگر وہ رو گردانی کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو خوب جاننے والا ہے۔
نصاریٰ نجران سے مال لینے پر صلح : اور وہ یہ کہ ہر سال دو ہزار جوڑے کپڑوں کے پیش کیا کریں گے۔ ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں، آپ نے ان سے اس بات پر صلح کرلی اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اہل نجران پر عذاب منڈلا رہا تھا اگر وہ مباہلہ کرلیتے تو مسخ کردیئے جاتے اور بندر اور خنزیر بنا دیئے جاتے اور ان کے سارے علاقے کو آگ جلا کر ختم کردیتی اور نجران کے لوگ بالکل ختم ہوجاتے یہاں تک کہ پرندے بھی درختوں پر نہ رہتے۔ اور ایک سال بھی پورا نہ ہوتا کہ تمام نصاریٰ ہلاک ہوجاتے۔ تفسیر ابن کثیر میں صفحہ 369: ج 1 بحوالہ مسند احمد حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ لوگ جو رسول اللہ ﷺ سے مباہلہ کرنے کو تیار ہو رہے تھے اگر مباہلہ کے لیے نکل آتے تو (میدان مباہلہ سے) اس حال میں واپس ہوتے کہ نہ مال پاتے نہ اہل و عیال میں سے کسی کو پاتے۔ (اور خود بھی مرجاتے) نصاریٰ مباہلہ کے لیے راضی نہ ہوئے اور اپنے باطل دین پر قائم رہے اور یہ جانتے ہوئے کہ محمد عربی ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں ایمان نہ لائے اور ایمان سے رو گردانی کر بیٹھے اور آج تک ان کا یہی طریقہ ہے حضرات علماء کرام نے بارہا مناظروں میں شکست دی ہے۔ ان کی موجودہ انجیل میں تحریف ثابت کی ہے ان کے دین کو مصنوعی خود ساختہ دین بارہا ثابت کرچکے ہیں لیکن وہ اپنے دنیاوی اغراض سیاسیہ اور غیر سیاسیہ کی وجہ سے دین اسلام کو قبول نہیں کرتے اور دنیا بھر میں فساد کر رہے ہیں جس وقت رسول اللہ ﷺ نے ان کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اس وقت سے لے کر آج تک ان کا یہی طریقہ رہا ہے اللہ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا : (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بالْمُفْسِدِیْنَ ) (کہ اگر یہ لوگ رو گردانی کریں تو اللہ مفسدوں کو خوب جاننے والا ہے) یہ وعید اس وقت سے لے کر آج تک کے نصاریٰ کو اور آج کے بعد جو نصاریٰ حق سے اعراض کریں گے قیامت تک ان سب کو شامل ہے۔
Top