Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 98
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۖۗ وَ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَكْفُرُوْنَ : تم انکار کرتے ہو بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے اہل کتاب تم کیوں کفر کرتے ہو اللہ کی آیات کے ساتھ حالانکہ اللہ کو تمہارے سب کاموں کی اطلاع ہے،
یہودیوں کی شرارت سے مسلمانوں میں انتشار، اور مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا حکم تفسیر درمنثور صفحہ 57: ج 2 میں ان آیات کا سبب نزول یوں لکھا ہے کہ شاس بن قیس ایک بوڑھا یہودی تھا جو بہت بڑا کافر تھا، یہ مسلمانوں سے بہت زیادہ کینہ رکھتا تھا اور بہت سخت حاسد بھی تھا۔ صحابہ ؓ کی ایک مجلس پر گزرا جس میں اوس اور خزرج کے حضرات جمع تھے۔ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ (اوس اور خزرج کے درمیان زمانہ جاہلیت میں لڑائیاں رہتی تھی) اس حاسد کو ان حضرات کا انس اور محبت کے ساتھ جمع ہونا اور آپس میں ان کی صلح ہونا بہت ناگوار ہوا۔ اس نے ایک یہودی نوجوان کو حکم دیا کہ تو جا کر ان کے پاس بیٹھ جا اور ان کو ان کی پرانی لڑائیاں یاد دلا دے اور ان کے سامنے بعض اشعار پڑھ دے جو یوم بعاث کے سلسلہ میں انہوں نے کہے تھے (بعاث ایک زبردست جنگ ہوئی تھی جس میں اوس کو خزرج پر غلبہ ہوا تھا) وہ نوجوان اس مجلس میں چلا گیا اور اس نے ایسی ہی باتیں کیں جن کی وجہ سے اوس اور خزرج کو پرانی باتیں یاد آگئیں اور جھگڑے شروع ہوگئے اور ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے۔ یہاں تک کہ دو آدمی آپس میں لڑنے بھی لگے، اور دونوں فریق میں لڑائی ٹھن گئی۔ پتھریلی زمین میں (جس کو اہل مدینہ حرہ کہتے ہیں) لڑنے کا اعلان ہوگیا اور دونوں قبیلے آپس میں جمع ہونے لگے۔ حضرت رسول اکرم ﷺ کو یہ قصہ معلوم ہوا آپ مہاجرین کو ساتھ لے کر ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے مسلمانوں کی جماعت تم اللہ سے ڈرو کیا تم جاہلیت کے دعوے کو لے کر اٹھ رہے ہو اور میں تمہارے درمیان موجود ہوں اس کے بعد کہ اللہ نے تمہیں اسلام کی ہدایت دی اور اسلام کے ذریعہ تم کو عزت دی اور جاہلیت کی چیزوں کو ختم فرما دیا اور تمہیں کفر سے بچا دیا اور تمہارے درمیان الفت پیدا کردی کیا تم اسی حالت پر واپس ہونا چاہتے ہو، جس پر تم حالت کفر میں تھے۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ کی بات سن کر دونوں قبیلوں کو احساس ہوا کہ یہ جو کچھ تم سے صادر ہوا اور جنگ کا ارادہ ہوا یہ شیطانی حرکت ہے اور دشمن کی مکاری ہے لہٰذا انہوں نے ہتھیار پھینک دیئے اور رونے لگے اور آپس میں ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔ پھر فرمانبر دار ہو کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے آئے۔ اللہ نے دشمن کی مکاری کو ختم فرما دیا۔ اور شاس بن قیس کے بارے میں دو آیات : (قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ شَھِیْدٌ عَلٰی مَا تَعْمَلُوْنَ ) نازل فرمائیں اور وہ دو آدمی آپس میں لڑ پڑے تھے (جن میں ایک کا نام اوس اور دوسرے کا نام جبار تھا) ان کے بارے میں اور جو لوگ لڑنے کے لیے ان کے ساتھ ہوگئے تھے ان کے بارے (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا) سے لے کر (متعدد آیات) (عَذَابٌ عَظِیْمٌ) تک نازل فرمائیں۔ ان آیات میں اول تو یہودیوں کو خطاب فرمایا جن میں شاس بن قیس بھی شامل ہے کہ تم لوگ اللہ کی آیات کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ کو سب معلوم ہے جو تمہارا کردار ہے اور ایمان لانے والوں کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہو ؟ اللہ کی راہ میں ٹیڑھا پن اور کجی کیوں تلاش کرتے ہو حالانکہ تم اپنے اعمال پر خود گواہ ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے۔ یہ حسد اور کینہ دونوں تمہیں دنیا میں لے ڈوبے اور آخرت میں بھی لے ڈوبیں گے تم اپنی فکر کرو حسد اور حقد (کینہ) سے باز آؤ اور کفر اور بداعمالی کو چھوڑو۔ پھر اہل ایمان کو خطاب فرمایا جن میں اوس اور جبار بھی شامل ہیں کہ اگر تم اہل کتاب کے ایک فریق کی بات مانو گے تو وہ تم کو ایمان پر نہ رہنے دیں گے تم کو کفر میں واپس کر کے چھوڑ دیں گے۔ دشمن کی بات کو سمجھ کر چلنا چاہیے۔ کافر تمہارے ایمان سے کبھی راضی نہیں ہوسکتے نیز فرمایا کہ تم کیسے کفر اختیار کرسکتے ہو حالانکہ تم پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں اور تمہارے اندر اللہ کا رسول ﷺ موجود ہے ان آیات اور رسول کی تعلیمات کو چھوڑو گے تو دشمن تم کو قابو کرلے گا اور دین کفر پر لگا دے گا۔ تم اللہ کو مضبوطی سے پکڑو جس نے اللہ کو مضبوطی سے پکڑا اس کو صحیح اور سیدھے راستے کی ہدایت مل گئی۔
Top