Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 10
اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا
اِذْ : جب جَآءُوْكُمْ : وہ تم پر آئے مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر وَمِنْ اَسْفَلَ : اور نیچے سے مِنْكُمْ : تمہارے وَاِذْ : اور جب زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : کج ہوئیں (چندھیا گئیں) آنکھیں وَبَلَغَتِ : اور پہنچ گئے الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الْحَنَاجِرَ : گلے وَتَظُنُّوْنَ : اور تم گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الظُّنُوْنَا : بہت سے گمان
جبکہ وہ لوگ تمہارے اوپر آ چڑھے اور تمہارے نیچے کی طرف سے بھی، اور جبکہ آنکھیں پھٹی رہ گئیں اور دل گلوں کو پہنچ گئے، اور تم اللہ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کر رہے تھے۔
دشمنوں کا خندق پار کرنے سے عاجز ہونا خندق کو دیکھ کر مشرکین مسلمانوں تک پہنچ تو نہ سکے جس سے آمنے سامنے ہو کر دونوں لشکروں کی جنگ ہوتی لیکن اپنی جگہ سے جلدی واپس بھی نہیں ہوئے اپنی جگہ پر جمے رہے، ان کا اپنی جگہ پر جمے رہنا تقریباً ایک مہینہ تک تھا، گو وہ خندق پار نہیں آسکتے تھے لیکن انہیں چھوڑ کر چلے جانے کا بھی موقع نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ اپنی جگہ پر مقیم رہے، اس موقعہ پر مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچی، سردی بھی تھی، کھانے پینے کا انتظام بھی نہ تھا اور خندق بھی اس حال میں کھودی کہ بھوک کی وجہ سے پیٹوں پر پتھر بندھے ہوئے تھے پھر دشمن کے مقابلہ میں اتنا لمبا پڑاؤ ڈالنا پڑا۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، اس وقت جو سخت مصیبت کا سامنا تھا اسے اللہ جل شانہ نے آیت بالا میں بیان فرمایا کہ دشمن تمہارے اوپر چڑھ آئے اور نیچے کی جانب سے بھی آگئے اور آنکھیں پھٹی رہ گئیں اور دل حلقوم کو پہنچ گئے جسے اردو کے محاورہ میں کہتے ہیں کلیجہ منہ کو آگیا، اس وقت مسلمان آزمائش میں ڈالے گئے اور سختی کے ساتھ جھنجھوڑ دئیے گئے، مفسرین نے فرمایا ہے کہ (مِنْ فَوْقِکُمْ ) سے وادی کا اوپر کا حصہ مراد ہے جو مشرق کی جانب تھا اس جانب سے بنو غطفان اور ان کے ساتھی آئے تھے جن میں اہل نجد بھی تھے اور بنو قریظہ بھی تھے اور بنو نضیر بھی، اور (اَسْفَلَ مِنْکُمْ ) سے وادی کا نیچے والا حصہ مراد ہے جو مغرب کی جانب تھا اس جانب سے قریش مکہ، بنی کنانہ اور اہل تہامہ آئے تھے۔ (وَتَظُنُّوْنَ باللّٰہِ الظُّنُوْنَا) جو فرمایا اس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ صیغہ خطاب مجموعی طور پر مدعیان اسلام کو شامل ہے جس میں مخلص اہل ایمان بھی تھے اور منافقین بھی، مومنین بھی، مومنین تو یہی گمان کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا اور نبی کریم ﷺ کی مدد فرمائے گا، اور منافقین دوسری قسم کا خیال کر رہے تھے وہ سمجھ رہے تھے کہ اب تو اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا اور یوں سمجھتے تھے کہ اتنے لوگوں سے جنگ کرنا ان تھوڑے سے مسلمانوں کے بس کی بات نہیں ہے (وقال بعضھم انہ خطاب للمؤمنین المخلصین وکانت ظنونھم من خاطر نفس وھواجسھا التی یوجبھا الخوف الطبیعی وھذا لا مؤاخذہ فیہ قال صاحب الروح بعد ھذا الذی ذکرنا او یقال : ظنونھم المختلفۃ ھی ظن النصر بدون نیل العدو منھم شَیْءًا وظنہ بعد النیل وظن الامتحان وعلیٰ ھذا لا یحتاج الی الاعتذار) (اور بعض مفسرین نے کہا کہ یہ (وَتَظُنُّوْنَ باللّٰہِ الظُّنُوْنَا) کا خطاب مومنین مخلصین سے ہے۔ مومنین مخلصین کے گمان دل کے خیالات تھے جن سے طبعی خوف پیدا ہوتا ہے اور ایسے گمانوں میں کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ روح المعانی والے نے اس کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا بعض نے کہا کہ ان کے اس طرح کے مختلف گمان مراد ہیں کہ دشمن سے لڑائی کے بغیر ہی مدد ہوجائے اور دشمن سے لڑائی کے بعد اور آزمائش کا گمان اور اس طرح کے گمانوں پر کسی معذرت کی ضرورت نہیں ہے۔ ) بعض کافروں کا مقتول ہونا دشمن نے خندق کو پار کرنے کی ہمت تو نہ کی البتہ کچھ تیر اندازی ہوتی رہی، مشرکین میں سے چند آدمی اپنے گھوڑے لے کر خندق میں اتر گئے جنہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ان میں سے ایک شخص عمرو بن عبدود بھی تھا، جنگ بدر میں اس نے سخت چوٹ کھائی تھی اس لیے جنگ احد میں شریک نہ ہوسکا تھا، غزوہ خندق کے موقعہ پر وہ خندق میں کو دا اور اس نے اپنی بہادری دکھانے کے لیے پکار کر کہا کہ (ھَلْ مَنْ یُّبَارِزُ ) یعنی مجھ سے کون مقابلہ کرتا ہے ؟ (اس وقت وہ ہتھیاروں سے لیس تھا) اس کو اہل عرب ہزار سواروں کے برابر سمجھتے تھے حضرت علی ؓ آپ ﷺ سے اجازت لے کر اس کے سامنے آئے عمرو بن عبدود نے کہا کہ تم کون ہو ؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں علی بن ابی طالب ہوں ! اس نے کہا کہ تمہاری عمر کم ہے میں اچھا نہیں سمجھتا کہ تمہارا خون بہاؤں، تمہارے چچاؤں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عمر میں تجھ سے بڑے ہیں ان میں سے کسی کو سامنے لاؤ، حضرت علی ؓ نے فرمایا لیکن مجھے تو یہ پسند ہے کہ تیرا خون بہاؤں، یہ بات سن کر وہ غصہ میں بھر گیا اور تلوار نکال کر حضرت علی ؓ کی طرف بڑھا اور حضرت علی ؓ نے اس سے مقابلہ کیا اور ڈھال آگے بڑھا دی، اس نے ایسے زور سے تلوار ماری کہ ڈھال کٹ گئی، پھر حضرت علی ؓ نے اس کے مونڈھے کے قریب تلوار ماری جس سے وہ گرگیا ، غبار بلند ہوا اور حضرت علی ؓ نے زور سے اللہ اکبر کہا، تکبیر کی آواز میں مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ حضرت علی ؓ نے دشمن کو ختم کردیا ہے، مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمیں اس کی نعش دے دی جائے ہم اس کے عوض بطور دیت کے دس ہزار درہم دے دیں گے، بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے بارہ ہزار درہم کی پیشکش کی، آپ ﷺ نے جواب میں کہلوا دیا کہ تم اس کی نعش کو لے لو ہم مردوں کی قیمت نہیں کھاتے، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ اس کی نعش دے دو اس کی نعش بھی خبیث ہے اس کی دیت بھی خبیث ہے۔ عمرو بن عبدود کے علاوہ دشمن کے اور بھی تین چار آدمی مارے گئے جن میں سے ایک یہودی کو حضرت صفیہ بنت عبد المطلب ؓ نے قتل کیا جو مسلمان عورتوں کے قلعہ کے باہر چکر لگا رہا تھا، مسلمانوں میں سے حضرت سعد بن معاذ ؓ کو ایک تیر آکر لگا جس نے ان کی اکحل نامی رگ کاٹ دی، انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ مجھے اتنی زندگی اور نصیب فرما کہ بنی قریظہ (قبیلہ یہود) کی ذلت اور ہلاکت دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرلوں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی جس کا تذکرہ غزوہ احزاب کے تذکرہ کے بعد آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ شہید ہونے والوں میں انس بن اوس اور عبد اللہ بن سہل اور طفیل بن نعمان، ثعلبہ ابن غنمہ اور کعب بن زید ؓ کے اسمائے گرامی ذکر کیے گئے ہیں۔ جہاد کی مشغولیت میں بعض نمازوں کا قضا ہوجانا غزوہ احزاب کے موقعہ پر اس قدر مشغولیت اور پریشانی رہی کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز بھی نہ پڑھ سکے، آپ نے بددعا دیتے ہوئے فرمایا : (ملاء اللّٰہ علیھم بیوتھم وقبورھم نارًا کما شغلونا عن الصلوٰۃ الوسطیٰ حتی غابت الشمس) (اللہ ان دشمنوں کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھرے جیسا کہ انہوں نے ہمیں صلوٰۃ وسطیٰ سے ایسا مشغول رکھا کہ سورج بھی غائب ہوگیا) اس کے بعد آپ نے وضو فرمایا پھر آپ نے عصر کی نماز پڑھی، اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی، بعض روایات میں ہے کہ غزوۂ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی چار نمازیں قضا ہوگئی تھیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء آپ ﷺ نے رات کا ایک حصہ گزر جانے پر ان کو اسی ترتیب سے پڑھا جس ترتیب سے قضاء ہوئی تھیں، (عشاء تو وقت عشاء ہی میں پڑھی گئی کیونکہ رات باقی تھی) البتہ جس وقت پڑھی جاتی تھی اس سے مؤخر ہوگئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ جب کوئی مشکل پیش آتی تھی نماز میں مشغول ہوجاتے تھے، غزوہ خندق کے موقعہ پر بھی آپ ﷺ دعائیں کرتے رہے، دشمنوں کے شکست خوردہ ہو کر بھاگنے سے پہلے تین دن تک خوب زیادہ دعا کا اہتمام کیا، صحیح بخاری ص 590 میں حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مقابلے میں آنے والی جماعتوں کی شکست کے بارے میں یوں دعا کی (اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اَھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اَھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلَھُمْ ) (اے اللہ کتاب کے نازل فرمانے والے جلدی حساب لینے والے ان جماعتوں کو شکست دے اور ان کو ڈگمگا دے) صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں بھی کوئی دعا بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھو (اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا) (اے اللہ ہماری آبرو کی حفاظت فرما اور ہمارے خوف کو ہٹا کر امن عطا فرما۔ ) دعا کی قبولیت اور دشمنوں کی ہزیمت اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور سخت تیز ہوا بھیج دی جس سے دشمنوں کے خیمے اکھڑ گئے، چولہے بجھ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں، ہوا تیز بھی تھی اور سخت سرد بھی، دشمنوں کی جماعتیں اس سے متاثر ہو کر بھاگ کھڑی ہوئیں، ابو سفیان جو اس وقت قریش مکہ کا قائد بن کر آیا تھا اس نے کہا تھا اے قریشیو ! اب یہاں ٹھہرنے کا موقع نہیں رہا ہتھیار بھی ختم ہوچکے، جانور بھی ختم ہوچکے اور بنو قریظہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرچکے ہیں، ہوا کے تھپیڑوں کو تم دیکھ ہی رہے ہو، اب یہاں سے چلے جاؤ میں تو جا رہا ہوں، اس کے بعد ابو سفیان اپنے اونٹ پر بیٹھا اور چل دیا پھر قریش بھی چلے گئے، قبیلہ بنو غطفان کو قریش کی یہ حرکت معلوم ہوئی تو وہ بھی واپس ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنا انعام یاد دلایا اور فرمایا : (یٰٓاَیُّھَا الَّذیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَآءَ تْکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا) (اے ایمان والو اللہ کی نعمت جو تمہیں ملی اسے یاد کرو جبکہ تمہارے پاس لشکر آگئے سو ہم نے ان پر ہوا بھیج دی اور لشکر بھیج دئیے جو تم نے نہیں دیکھے) ” جن لشکروں کو نہیں دیکھا “ ان سے فرشتے مراد ہیں، اس موقعہ پر فرشتے نازل ہوئے تھے لیکن انہوں نے قتال میں حصہ نہیں لیا البتہ دشمنوں کے دلوں میں رعب ڈالنے کا کام کیا، جب ہوا کے تھپیڑوں سے عاجز آکر مشرکین بھاگ رہے تھے تو فرشتے تکبیر بلند کر رہے تھے اور یوں کہتے جا رہے تھے کہ بھاگ چلو یہاں ٹھہرنے کا موقع نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کے ذریعہ دشمنان اسلام کو واپس کردیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اب یہ لوگ ہم سے لڑنے کے لیے نہ آئیں گے اور ہم ہی ان سے لڑنے کے لیے جائیں گے 1 ؂ چناچہ غزوہ خندق کے بعد دشمن مدینہ منورہ پر چڑھائی کا ارادہ نہیں کرسکے 8 ہجری میں مکہ معظمہ فتح ہوگیا اور اس کے بعد عرب کے لوگ مسلمان ہوگئے، جوق در جوق مدینہ منورہ میں ان کے وفود آتے تھے اور اسلام قبول کرتے تھے۔ بعض ان واقعات کا تذکرہ جو خندق کھودتے وقت پیش آئے سخت بھوک اور سردی کا مقابلہ جس وقت دشمن چڑھ آئے تھے اس وقت سخت سردی کا زمانہ تھا، کھانے پینے کا بھی معقول انتظام نہ تھا، بھوک کی مصیبت بھی درپیش تھی، رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس خندق کھودنے میں شریک تھے، حضرات صحابہ کرام ؓ بھی اس کام میں مشغول تھے، پیٹوں پر پتھر باندھ رکھے تھے، خندق کھودنی بھی پڑتی تھی اور اس کی مٹی بھی منتقل کرنی پڑتی تھی جسے اپنے کندھوں اور پشتوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے تھے، کھانے کے لیے ایک مٹھی جو لائے ہوتے تھے جنہیں ابال لیا جاتا تھا اور یہ ابلے ہوئے جو ایسے تیل یا چربی کے ساتھ سامنے رکھ لیے جاتے تھے جس میں بو آجاتی تھی اور اس کو کھانا بھی آسان نہ تھا مشکل سے گلے سے اترتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس موقعہ پر یہ پڑھتے جاتے تھے (اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْاٰخِرَۃِ فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃِ ) (اے اللہ زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے سو آپ انصار اور مہاجرین کو بخش دیجیے) آپ ﷺ کی یہ بات سن کر صحابہ کرام ؓ جواب میں یوں کہتے تھے۔ نَحْنُ الَّذِیْ بَایعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا (ہم وہ ہیں جنہوں نے جہاد پر محمد سے بیعت کی ہے ہم جب تک بھی زندہ رہیں ہماری بیعت باقی ہے) رسول اللہ ﷺ خندق کھودنے میں شریک تھے اور مٹی منتقل کرنے کی وجہ سے آپ ﷺ کے شکم مبارک پر اتنی مٹی لگ گئی کہ کھال دیکھنے میں نہیں آتی تھی، اس موقعہ پر آپ ﷺ یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے جو حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے شعر ہیں۔ 1 ؂ البدایہ والنہایہ، سیرت ابن ہشام، معالم التنزیل۔ (1) اَللّٰھُمَّ لو لا انت ما اھتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا (2) فانزلن سکینۃ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا (3) ان الا لی قد بغوا علینا وان ارادوا فتنۃ اَبَیْنَا (1) اے اللہ اگر آپ ہدایت نہ دیتے تو ہم ہدایت نہ پاتے، اور نہ صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے۔ (2، 3) سو ہم پر اطمینان نازل فرمائیے، اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھئے اگر ہماری مڈبھیڑ ہوجائے۔ آخری کلمہ اَبَیْنا کو رسول اللہ ﷺ بلند آواز سے پڑھتے تھے 1 ؂ اور اس کلمہ کو دہراتے تھے۔ 2 ؂ رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کہ مسلمان فلاں فلاں علاقوں پر قابض ہوں گے خندق کھودتے وقت ایک یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک ایسی سخت چٹان برآمد ہوئی جس کا توڑنا حضرات صحابہ ؓ کے بس سے باہر ہوگیا، صحابہ کرام ؓ نے آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ میں اس میں اترتا ہوں، آپ ﷺ نے پھاوڑہ لے کر اس میں مارا جس سے وہ ریت کا ڈھیر بن گیا۔ بعض روایات میں ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے اس چٹان میں پھاوڑہ مارا تو ضرب لگنے کی وجہ سے ایک ایسی تیز روشنی ظاہر ہوگئی جس سے مدینہ منورہ کی دونوں جانب روشنی ہوگئی، ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اندھیری رات میں چراغ جل گیا ہو، اس پر آپ ﷺ نے فتح یابی ظاہر کرنے والی تکبیر کہی اور مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کہا، حضرت سلمان فارسی ؓ اور دیگر صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ کیا روشنی تھی جو بار بار ظاہر ہو رہی تھی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب پہلی بار روشنی ہوئی تو اس میں مجھے حیرہ شہر کے محلات اور کسریٰ کے شہر ظاہر ہوگئے، مجھے جبریل نے بتایا کہ آپ کی امت ان پر غلبہ پائے گی اور دوسری بار جو چمک ظاہر ہوئی اس سے روم کی سرزمین کے سرخ محلات ظاہر ہوگئے مجھے جبرئیل نے بتایا کہ میری امت ان پر غلبہ پائے گی اور تیسری بار جو روشنی چمکی اس سے مجھے صنعاء کے محلات ظاہر ہوئے (جو یمن کا مشہور شہر ہے) جبریل نے مجھے بتایا کہ میری امت ان پر بھی غلبہ پائے گی لہٰذا تم خوش ہوجاؤ، اس پر مسلمان بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور یقین کرلیا کہ یہ سچا وعدہ ہے اور پورا ہو کر رہے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے جب مذکورہ بالا شہروں کو فتح ہونے کی خبر دی تو منافقین کہنے لگے کہ ان کو دیکھ لو یثرب سے ان کو حیرہ اور کسریٰ کے محل نظر آ رہے ہیں اور یہ خبر دی جا رہی ہے کہ تم انہیں فتح کرو گے اور حال یہ ہے کہ تم لوگ خندق کھود رہے ہو یعنی مصیبت میں گرفتار ہو۔ اور بعض روایات میں یوں ہے کہ جب آپ نے بسم اللہ پڑھ کر پہلی بار ضرب ماری تو اس چٹان کا تہائی حصہ ٹوٹ گیا آپ نے فرمایا اللّٰہُ اَکْبَرْ مجھے ملک شام کے خزانے دے دئیے گئے، پھر دوبارہ ضرب ماری تو اس کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا اور فرمایا اللہ اکبر مجھے ملک فارس کی چابیاں دے دی گئیں ساتھ ہی آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا اللہ کی قسم ! شام کے سرخ محل اور مدائن کا سفید محل اور صنعاء کے دروزے ابھی یہیں اسی وقت دیکھ رہا ہوں۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں جب یہ شہر فتح ہوتے جاتے تھے تو حضرت ابوہریرہ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ جس ذات کے قبضہ میں ابوہریرہ کی جان ہے اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم نے جن شہروں کو فتح کرلیا اور قیامت تک جن شہروں کو فتح کرو گے ان سب کی چابیاں جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو پہلے ہی سے دے دی گئی تھیں، یعنی آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری دے دی گئی تھی کہ آپ کی امت ان کو فتح کرے گی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ یہ بھی فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ تو اس دنیا سے تشریف لے گئے ہیں اب تم ان کو حاصل کر رہے ہو۔ (البدایہ النہایہ ج 4 ص 99 تا 102) 1 ؂ صحیح بخاری ج 2 ص 588۔ 589۔ 2 ؂ مشکوٰۃ المصابیح (باب البیان والشعر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب قیصر ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا اور جب کسریٰ ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم قیصر و کسریٰ کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے مشارق اور مغارب مجھے عطا فرما دئیے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے میری امت کا ملک وہاں تک پہنچ جائے گا۔ حضرت جابر ؓ کے ہاں ضیافت عامہ حضرت جابر ؓ نے بیان کیا کہ خندق کھودتے وقت جب ایک سخت چٹان پیش آگئی تو صحابہ کرام ؓ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ایسی جگہ نکل آئی ہے جس کی مٹی بہت سخت ہے (جو ہمارے قابو میں نہیں آرہی) آپ ﷺ نے فرمایا میں اترتا ہوں اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ کی شکم مبارک پر پتھر بندھا ہوا تھا اور بھوک کا یہ عالم تھا کہ ہم نے تین دن سے کچھ بھی نہیں چکھا تھا آپ نے پھاؤڑا لیا اور اس سخت زمین میں مارا جس کی وجہ سے ایسا ہوگیا جیسے ریت کا ڈھیر ہو وہ خود ہی پھسلا جا رہا تھا۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی کہ ذرا گھر ہو آؤں، آپ نے اجازت دے دی، میں اپنے گھر گیا اور بیوی سے کہا کہ تمہارے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز ہے ؟ میں نے محسوس کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سخت بھوک کی حالت میں ہیں، اسی پر میری بیوی نے چمڑے کا ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع یعنی تین کلو کے لگ بھگ جو تھے، اس کے علاوہ ہماری ایک چھوٹی سی پالتو بکری بھی تھی میں نے اسے ذبح کیا اور میری اہلیہ نے جو پیسنا شروع کیے اتنے میں میں نے بکری کی بوٹیاں بنا کر ہانڈی میں ڈالیں وہ جو پیسنے سے فارغ ہوگئی، میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جانے لگا تو وہ کہنے لگی جا تو رہے ہو رسول اللہ ﷺ کے سامنے مجھے رسوا مت کرنا (ایسا نہ ہو کہ زیادہ افراد آجائیں) میں حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم نے تھوڑا سا کھانا تیار کیا ہے آپ تشریف لے چلیں اور اپنے ہمراہ ایک دو آدمی اور لے لیں، آپ ﷺ نے فرمایا کتنا کھانا ہے ؟ میں نے پوری صورت حال عرض کردی، آپ ﷺ نے فرمایا یہ تو بہت ہے، پھر آپ نے زور سے اعلان فرمایا کہ خندق والو ! آجاؤ جابر نے کھانا تیار کیا ہے، آپ ﷺ مہاجرین و انصار کو ساتھ لے کر روانہ ہوگئے، آپ آگے تشریف لا رہے تھے اور حضرات صحابہ ؓ آپ کے پیچھے چل رہے تھے، میں جلدی سے اپنی بیوی کے پاس پہنچا اور پوری کیفیت بیان کردی (کہ مجمع کثیر آ رہا ہے) اس پر وہ ناراض ہوئی اور کہا کہ وہی ہوا نا ! جس کا مجھے اندیشہ تھا، میں نے کہا تھا کہ مجھے رسوا مت کرنا ! پھر کہنے لگی اچھا تم نے رسول اللہ ﷺ کو سب بات بتادی تھی ؟ میں نے کہا کہ ہاں میں نے سب کچھ بتادیا تھا۔ 1 ؂ آپ تشریف لائے تو جو گوندھا ہوا آٹا تھا اس میں اپنا لعاب مبارک ڈال دیا اور برکت کی دعا فرمائی، پھر ہانڈی کی طرف توجہ فرمائی اور اس میں بھی لعاب مبارک ڈال دیا اور برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا کہ ایک روٹی پکانے والی اور بلا لو اور ہانڈی کو چولہے سے مت اتارو، حضور اکرم ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ تم گھر میں آجاؤ کھچ بچ میں مت بیٹھو، چناچہ صحابہ کرام ؓ بیٹھ گئے اور روٹی پکتی رہی جو آپ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوتی رہی، آپ روٹی توڑ توڑ کر اس پر گوشت کی بوٹیاں رکھ کر اور شوربا بھر بھر کر حاضرین کو دیتے رہے یہاں تک کہ سب نے پیٹ بھر کر کھالیا، حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ کھانے والے ہزار آدمی تھے میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ انہوں نے خوب کھایا اور سیر ہو کر واپس چلے گئے اور ہماری ہانڈی کا یہ حال تھا کہ جیسی تھی اسی طرح ابل رہی تھی اور ہمارا آٹا جیسا تھا ویسا ہی رہا (گویا اس میں سے کچھ بھی خرچ نہیں ہوا) آپ ﷺ نے میری بیوی سے فرمایا کہ یہ بچا ہوا کھانا خود کھالو اور (پڑوسیوں کو بھی) ہدیہ دو کیونکہ لوگ بھوک کی مصیبت میں مبتلا ہیں۔ (صحیح بخاری جلد 2 ص 588، 589) اسی طرح کا ایک واقعہ حافظ ابن کثیر ؓ نے بحوالہ محمد بن اسحاق یوں بیان کیا ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی بہن نے بیان کیا کہ میری والدہ نے مجھے لپ بھر کر کھجوریں دیں جو میرے کپڑے میں ڈال دیں اور کہا کہ اے میری بٹیا جاؤ اسے اپنے والد اور اپنے ماموں عبد اللہ 1 ؂ البدایہ والنہایہ جلد 4 ص 98 میں بحوالہ دلائل النبوۃ للبیہقی یہ بھی اضافہ ہے کہ یہ سن کر وہ کہنے لگی کہ بس پھر تو اللہ اور اس کا رسول ہی جانیں۔ بن رواحہ کے پاس لے جاؤ تاکہ وہ صبح کے وقت ان کو کھالیں (یہ دونوں حضرات بھی خندق کھودنے میں مشغول تھے) میں یہ کھجوریں لے کر روانہ ہوئی، اپنے والد اور ماموں کی تلاش میں تھی کہ اسی اثناء میں رسول اللہ ﷺ پر میرا گذر ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے بٹیا ! یہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ یہ کچھ کھجوریں ہیں جو میری والدہ نے بھیجی ہیں تاکہ اپنے والد اور اپنے ماموں کو دے دوں ! حضور ﷺ نے فرمایا کہ ان کو یہاں لاؤ، میں نے وہ کھجوریں آپ ﷺ کی ہتھیلیوں میں ڈال دیں، وہ اتنی کم تھیں کہ ان سے آپ کی دونوں ہتھیلیاں نہ بھر سکیں، آپ ﷺ نے ایک کپڑا بچھانے کا حکم دیا پھر وہ کھجوریں اس پر پھیلا دیں اور ایک شخص سے فرمایا کہ اونچی آواز میں خندق والوں کو پکارو کہ آجاؤ صبح کا کھانا کھالو، خندق کے کام میں جو حضرات مشغول تھے حاضر ہوئے اور ان کھجوروں میں سے کھاتے رہے یہاں تک کہ سب فارغ ہو کر واپس ہوگئے۔ (قال ابن کثیر فی البدایۃ وانھایۃ ج 4 ص 199 ھکذا رواہ ابن اسحاق وفیہ انقطاع)
Top