Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 14
وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا
وَلَوْ : اور اگر دُخِلَتْ : داخل ہوجائیں عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ : سے اَقْطَارِهَا : اس (مدینہ) کے اطراف ثُمَّ : پھر سُئِلُوا : ان سے چاہا جائے الْفِتْنَةَ : فساد لَاٰتَوْهَا : تو وہ ضرور اسے دیں گے وَمَا تَلَبَّثُوْا : اور نہ دیر لگائیں گے بِهَآ : اس (گھر) میں اِلَّا : مگر (صرف) يَسِيْرًا : تھوڑی سی
اگر مدینہ کے اطراف سے کوئی لشکر ان پر گھس جائے پھر ان سے فتنہ کا سوال کیا جائے تو یہ ضرور فتنے کو منظور کرلیں گے اور گھروں میں نہیں ٹھہریں گے مگر بس ذرا سی دیر،
تیسری آیت میں ان لوگوں کی فتنہ پردازی کا تذکرہ فرمایا (وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَیْھِمْ مِّنْ اَقْطَارِھَا) (الآیۃ) (اگر مدینہ کے اطراف سے کوئی لشکر ان پر گھس آئے پھر ان سے فتنے کا سوال کیا جائے تو یہ ضرور فتنے کو منظور کرلیں گے) مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جو گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا بہانہ کرکے آپ ﷺ سے اجازت لے کر راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کا مقصد مسلمانوں کے ساتھ شریک قتال ہونے سے منہ موڑنا ہے۔ اگر کافروں کا کوئی لشکر ان کے پاس پہنچ جائے اور وہ ان سے یہ کہے کہ چلو مسلمانوں سے لڑو تو یہ ضرور ان کی بات مان لیں گے اور اپنے گھروں میں بہت ہی کم ٹھہریں گے بس کافروں کے کہتے ہی چل پڑیں گے یا اتنی دیر لگائیں گے جتنی دیر میں ہتھیار لے لیں، اس وقت انہیں گھروں کی حفاظت کا خیال بالکل نہیں رہے گا، انہیں مسلمانوں سے دشمنی ہے اور کافروں سے محبت ہے۔ (قال صاحب الروح ان طلبھم الاذن فی الرجوع لیس لاختلال بیوتھم بل لنفاقھم وکراھتھم نصرتک) (تفسیر روح المعانی کے مصنف (رح) فرماتے ہیں ان کا واپسی کی اجازت مانگنا واقعتہً کوئی گھروں کے نقصان کے اندیشہ کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ان کے منافق ہونے اور تیری مدد کو ناپسند کرنے کی وجہ سے تھا۔ ) آیت کریمہ کی دوسری طرح بھی تفسیر کی گئی ہے، صاحب روح المعانی فرماتے ہیں، (والوجوہ المحتملۃ فی الاٰیات کثیرۃ کما لا یخفیٰ من لہ ادنیٰ تأمل وما ذکرناہ اولاً ھو الاظھر فی ما أریٰ ) (آیات میں کئی سارے احتمالات موجود ہیں جیسا کہ ذرا غور بھی کرنے والے آدمی پر مخفی نہیں ہے جو ہم نے سب سے پہلے توجیہ ذکر کی ہے میرے خیال میں وہی زیادہ راجح ہے۔ )
Top