بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے نبی اللہ سے ڈرتے رہیے اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانئے، بلاشبہ اللہ علیم ہے حکیم ہے،
اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیے اور اس پر توکل کیجیے، کافروں اور منافقوں کی بات مانئے یہاں سے سورة احزاب شروع ہو رہی ہے، اَحْزَابْ حِزْب کی جمع ہے جو گروہ کے معنی میں آتا ہے، 5 ھ میں قریش مکہ اور بہت سے قبائل اور جماعتیں سب مل کر مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے مدینہ طیبہ پر چڑھ آئے تھے۔ چونکہ ان کے بہت سے گروہ تھے اس لیے اس غزوہ کا نام غزوۂ احزاب معروف ہوا۔ اور چونکہ اس موقع پر خندق بھی کھودی گئی تھی (اور ظاہری اسباب میں وہی تمام گروہوں کے حملہ سے محفوظ ہونے کا ذریعہ بنی) اس لیے اس غزوہ کو غزوۂ خندق بھی کہا جاتا ہے۔ تفسیر روح المعانی میں حضرت ابن عباس ؓ سے سورة الاحزاب کا سبب نزول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل مکہ میں سے ولید بن مغیرہ اور شیبہ بن ربیعہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر آپ اپنی دعوت کو چھوڑ دیں، تو ہم آپ کو اپنا آدھا مال دے دیں گے، اور ادھر مدینہ طیبہ کے یہودیوں اور منافقوں نے یہ دھمکی دی کہ آپ نے اگر اپنی بات نہ چھوڑی تو ہم آپ کو قتل کردیں گے، اس پر سورة الاحزاب نازل ہوئی۔ اوپر تین آیات کا ترجمہ ذکر کیا گیا ہے، ان میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب ہے کہ آپ برابر تقویٰ پر قائم و دائم رہیے، کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانیے اور آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو وحی کی جاتی ہے اس کا اتباع کرتے رہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں، اللہ کافی ہے اللہ کارساز ہے، وہ کارساز ہونے کے لیے کافی ہے، اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے، دشمنوں نے جو آپ کو مال کی پیشکش کی ہے اور جو قتل کی دھمکی دی ہے اسے اس کا علم ہے، اللہ تعالیٰ حکیم بھی ہے جو کچھ وجود میں آتا ہے اس میں حکمت ہے، دشمنوں نے آپ کو جو پیشکش کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ مضبوطی کے ساتھ اللہ کے دین پر جمے رہیں اور وحی کا اتباع کرتے رہیں تاکہ آپ کے اندر مزید قوت اور توکل کی شان پیدا ہوجائے۔
Top